Wednesday 25 September 2013

فضائی دفاع میں غیر مسلم ہم وطنوں کا کردار




فضائی دفاع میں غیر مسلم ہم وطنوں کا کردار

۶ستمبر پاکستان کی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل ہے اس دن قوم کے ہر فرد نے مسلح افواج کے شانہ بشانہ اپنی سابقہ روایات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنا تن من دھن دھرتی ماں پر قربانی کے لیے پیش کردیا پاک فضائیہ کے سر فروشوں نے جس طرح فضائی جنگ لڑی وہ اپنی مثال آپ ہے ۔ اس دن ہمارے غیر مسلم ہم وطن بھی مادر وطن کے دفاع کے لیے سر بکف نکل آئے اور دفاعِ وطن میں کوئی دقیقہ فردگذاشت نہیں کیا اُن کی عطیم قربانی اور خدمات کے باعث آج وطن عزیز کے باسیوں کے سر فخر سے بلند ہیں ۔پاک فضائیہ میں ان کی خدمات ہمیشہ مشعل راہ رہیں گی ۔ان روشن مثالوںمیں گروپ کیپٹن ایرک گورڈن ہال 'ونگ کمانڈر مرون لیز لی مڈل کوٹ سکواڈرن لیڈر پیٹر کرسٹی' فلائیٹ لیفٹننٹ سیسل چودھری اور فلائیٹ لیفٹننٹ ولیم ڈی ہارلے شامل ہیں ۔

گروپ کیپٹن ایرک گورڈن ہال پاک بھارت جنگ کے موقعہ پر پی اےایف بیس چکلالہ کے بیس کمانڈر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہے تھے ' پاک فضائیہ کا یہ بیس ٹرانسپورٹ کی سہولیات مہیا کرتا تھا ۔ دوران جنگ گروپ کیپٹن ایرک گورڈن ہال کی شبانہ روز محنت سے یہ بیس مکمل طور پر فعال رہا ۔ سامان اور فوجیوں کی فوری نقل و حرکت کے لیے ہمہ وقت ٹرانسپورٹ طیاروں کی فراہمی کو یقینی بنانا اُن ہی کی ذمہ داری تھی خصوصاً رن آف کچھ کے محاذ پر برّی فوج کی فوری منتقلی اُن ہی کی کوششوں سے بروقت اور موٗثر ہوئی اس کے علاوہ اپنی زیر نگرانی ہرکولیس سی ون تھرٹی طیاروں کو بطور بمبار استعمال کروایا اور کامیاب مشن کیے حب الوطنی کے جذبے سے سر شار گروپ کیپٹن ایرک گورڈن ہال نے کئی مشن خود بھی سرانجام دئیے جس سے عملے کے اراکین اور ہوابازوں کے حوصلے بلند ہوئے ۔آپ کی شاندار حربی کاروائیوں ے پیش نظر حکومت پاکستان نے اُنہیں ستارہ جرأت کے اعزاز سے نوازا ۔آپ پاک فضائیہ سے ائر وائس مارشل کے عہدے سے ریٹائر ہوئے ۔

'ونگ کمانڈر مرون لیز لی مڈل کوٹ نے پاک بھارت جنگوں میں بھرپور حصہ لیا جنگ ۶۵ میں آپ سکواڈرن لیڈر تھے مادر وطن کی فضائی سرحدوں کے دفاع کے لیے آپ نے ۱۷ آپریشنز اور فضائی تصاویر کے تین آپریشنز میں حصہ لیا آپ نہائت نڈر اور دلیر ہوا باز تھے ۔'ونگ کمانڈر مرون لیز لی مڈل کوٹ چھے جولائی ۱۹۳۱ کولدھیانہ (مشرقی پنجاب ) میں پیدا ہوئے ، ۱۶ جولائی ۱۹۵۲ میں پاک فضائیہ میں شمولیت اختیار کی اور دو فروری ۱۹۵۴ میں کمیشن حاصل کیا ۱۹۶۵ کی جنگ کے وقت آپ نمبر ۹ سکواڈرن میں تھے جو سٹار فائٹر ۱۰۴ سے لیس تھا جس کی رفتار اور للکار سے دشمن کے دل دہل جاتے تھے ۔ بنیادی طور پر اس سکواڈرن کی ذمہ داری لڑاکا طیاروں اور زمینی افواج کو فضائی تحفظ فراہم کرنا تھا سترہ روزہ جنگ میں اس سکواڈرن کے طیاروں نے ۲۸۶ پروازیں کیں ۔ سکواڈرن لیڈر مرون لیز لی مڈل کوٹ نے کئی کامیاب آپریشنز کیے ، ایک شبینہ مشن میں آپ نے اور سکواڈرن لیڈر جمال اےخان (پاک فضائیہ کے سابق سربراہ ) نے دشمن کا ایک ایک کینبرا طیارہ گرایا ۱۹۶۵ کی طرح ۱۹۷۱ میں بھی آپ کی شجاعت بے مثل رہی ۔ ۳ دسمبر کو آغاز جنگ میں آپ بیرون ملک تربیتی دورے پر تھے آپ نے فوری واپسی کی اور حربی کاروائیوں میں اتنے انہماک اور دلجمعی کے ساتھ شریک ہوئے کہ فضائیہ کے ارکان کے لیے ایک مشعل راہ بنے آپ بیشتر کاروائیوں میں اپنے سٹار فائٹر کے ساتھ شریک رہے ۔ ایسی ہی ایک کاروائی میں آپ لیفٹننٹ محمد چنگیزی کے ساتھ دشمن کے جام نگر کے ہوائی اڈے پر کامیاب کاروائی کے بعد واپ ُرہے تھے کہ دشمن کے طیاروں نے دونوں طیاروں کو گھیر لیا اور دونوں مایہ ناز ہوا بازوں نے جام شہادت نوش کیا ۔ ۱۹۶۵ اور ۱۹۷۱ کی جنگ بے آپ کی بے مثل 
      بہادری کی بنا پر حکومت نے آپ کو ستارہ جرأت کے اعزاز سے نوازا۔
انتہائی بائیں جانب ، فلائیٹ لیفٹننٹ سیسل چودھری                                 


فلائیٹ لیفٹننٹ سیسل چودھری بھی ایک ایسے ہی ہواباز تھے جنہوں نے شجاعت کی ایک مثال قائم کی فلائیٹ لیفٹننٹ سیسل چودھری ۱۹۶۵ کی جنگ میں پاکستان ائر فورس کےنمبر ۵ سکواڈرن میں تھے آپ نے دشمن پر انتہائی بے جگری سے تابڑ توڑ حملے کیے ۔ ۶ ستمبر کی شام کو سکواڈرن لیڈر سرفراز رفیقی کی معیت میں دشمن کے ہوئی اڈوں پر حملے کے بعد واپسی میں دشمن کے دو ہنٹر طیارے مار گرائے اس موقعہ پر پاک فضائی کے طیاروں کا اپنے سے کئی گنا زیادہ طیاروں سے مقابلہ تھا ۔ اسی طرح ۱۱ ستمبر کو ونگ کمانڈر انور شمیم (فضائیہ کے سابق سربراہ) کے ہمراہ دشمن پر کامیاب حملہ کیا ۔ ۱۵ ستمبر کو زمینی راڈار سے نا کافی اطلاع کےباوجود اپنے بیس سے ڈیڑھ سو میل تک دشمن کا تعاقب کیا اور ایک کینبرا طیارہ مار گرایا ۔ دوران جنگ آپ کی خدمات آپ کی ذمہ داریوں سے بڑھ کر تھیں آپ کی جرأت و شجاعت کی وجہ سے حکومت پاکستان نے آپ کو ستارہ جرأت کے اعزاز سے نوازا 
فلائیٹ لیفٹننٹ سیسل چودھری گروپ کیپٹن کے عہدے سے ریٹائر ہوئے اور لاہور میں سینٹ انتھونی سکول قائم کیا اور تدریس سے وابستہ ہوئے

سکواڈرن لیڈر پیٹر کرسٹی ۲۰ جون ۱۹۳۷ کوکراچی میں پیدا ہوئے ۲۸ جنوری ۱۹۶۱ میں پاک فضائیہ میں بطور ہوا باز کمیشن حاصل کیا مگر بعد میں آپ کو نیوی گیشن برانچ مل گئی آپ نے دونوں پاک بھارت جنگوں میں حصہ لیا ۔ حربی پروازوں میں دل چسپی کے باعث روز و شب ہر لمحہ مستعد اور فرض کی ادئیگی کے لیے تیار رہتے ۔ انتہائی مشکل حالات میں بھی آپ کی رگِ ظرافت پھڑکتی رہتی اور انتہائی خوشگوار ماحول میں اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے ، نہائت ہر دلعزیز شخصیت تھے ۔۶ دسمبر ۱۹۷۱ کو جام نگر کے مشن سے واپسی پر آپ کا طیارہ نشانہ بنا اور حکومت نے اُنہیں لا پتہ قرار دے دیا آپ کی بے مثال اور بے لوث خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے آپ کو ستارہ جرأت عطا کیا ۔
دفاع پاکستان میں غیر مسلم ہم وطنوں کی وطن عزیز کے لیے ایسی بے شمار مثالیں ہیں انہی قربانیوں کے باعث آج ہم اپنے ملک پاکستان میں عزت و آبرو سے آزاد زندگی گزار رہے ہیں ۔ پاکستانی قوم اپنے ان ہم وطنوں کی قربانیاں کبھی فراموش نہیں کرسکتی ۔

Tuesday 24 September 2013

تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں



تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں
پاکستان ائر فورس کو اپنے محدود وسائل ، طیاروں اور سامانِ حرب کی کمی کا شروع ہی سے سامنا تھا ۔ اسی لیے پاک فضائیہ ہمیشہ سے ٓلات حرب کی نسبت افراد کی تربیت اور فنی صلاحیتوں پر توجہ دیتی رہی ۔ اور جب بھی دشمن نے جارحیت کی پاکستان ائر فورس نے مثالی قوت سے دشمن کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا جو نہ صرف پاک فضائیہ کے شاہینوں بلکہ پوری قوم کے لیے باعث فخر ہے
یہ اسی تربیت اور بہترین پیشہ ورانہ تربیت کا نتیجہ تھا کہ ۱۹۶۵ کی جنگ کے وقت پاکستان کے نمبر ۳۱ سکواڈرن کے پاس پاس بمبار طیارے صرف ۲۲ تھے جبکہ بھارت کے پاس اس کے مقابل بہترین بمبار کینبرا طیاروں کی تعداد ۶۰ تھی ۔ بہترین تربیت یافتہ تکنیکی عملے اور بلند حوصلہ ہوابازوں کی بدولت ان ۲۲ طیاروں نے ۱۶۷ ، پروازیں کیں جبکہ بھارت کے ۶۰، طیاروں نے ۹۲، پروازیں کیں جنگ کے اختتام پر پاکستان کے ۱۹ طیاروں کو نقصان پہنچا جبکہ بھارت کے ۵۴ ، طیارے تباہ ہوئے ۔
ایسی ہی اعلیٰ صلاھیتوں کے حامل ہوا باز سکواڈرن لیڈر عالم صدیقی اور سکواڈرن لیڈر اسلم قریشی (نیوی گیٹر) ۶، ستمبر کی شام اپنے پہلے مشن پر مسرور (ماڑی پور' کراچی ) سے روانہ ہوئے اور بھارتی فضائیہ کے جام نگر پربمباری کر کے زبردست تباہی کی ۔ مشن سے واپس ہوئے تو رات بارہ بجے دوسرے مشن پر روانہ ہوگئے اس مشن سے بھی کامیاب و کامران لوٹے تو دیکھا تیسرا مشن تیار تھا اور اس میں عالم صدیقی کا نام نہیں تھا سکواڈرن لیڈر عالم صدیقی دشمن کو تہس نہس کردینا چاہتے تھے ۔ اُن کی حالت ایک ایسے عقاب کی مانند تھی جس کے آ شیانے پر دشمن حملہ آور ہوا ہو وہ جنون کی کیفیت میں مبتلا تھے ۔ وہ مادر وطن کی حرمت کی طرف بڑھتے ہوئے ہر قدم کو کچل دینا چاہتے تھے ۔ اگرچہ دو مسلسل کامیاب کاروائیوں کے بعد انہیں آرام کی ضرورت تھی مگر جب گھر پر حملہ ہو تو آرام کیسا۔ اُنہوں نے رضا کارانہ طور پر تیسرے مشن کے لیے بھی اپنا نام دے دیا اُن کے ساتھی نیوی گیٹر سکواڈرن لیڈر اسلم قریشی بھلا کیسے پیچھے رہتے ۔ دونوں ساتھی شب تین بجے اپنے تیسرے مشن پر روانہ ہوئے ۔ یہ ایک چاندنی رات تھی چاندنی ہر سو پھیلی ہوئی تھی ۔ پاک فضائیہ کے اہل خان بیس ہی میں ایک کالونی میں مقیم ہوتے ہیں ۔ جیسے ہی مشن روانہ ہوتا زمینی عملہ انہیں خدا حافظ کہتا اور ان کیمیاب واپسی کے لیے دعا گو ہوتا اور یہی حال اُن کے اہل خانہ کا ہوتا جو اپنے پیاروں کے لیے دعا گو ہوتے اور یہ سلسلہ اُ س وقت تک جاری رہتا جب تک واپسی نہ ہو جاتی ۔
[​IMG]
سکواڈرن لیڈر اسلم قریشی سکواڈرن لیڈر عالم صدیقی

عالم صدیقی اور اسلم دشمن پر جلد حملہ آور ہونا چاہتے تھے ،اُس رات 6 بمبار طیرے مسرور بیس سے دشمن حملے کے لیے اُڑے ۔ چاندنی رات کی بدولت وہ جلد ہی اپنے ہدف پر پہنچ گئے ۔ جام نگر کے ہوائی اڈے پر تین ہزار فٹ کی بلندی سے غوطہ زن ہوتے نشانوں پر بم گراتے اور پھر فضا میں بلند ہو کر تین ہزار فٹ کی بلندی پر پہنچ جاتے اس طرح انہوں نے چار مرتبہ کیا ور دشمن کے ایسے ہوائی اڈے کی جو بھارت بحری کے لیے بہت اہم تھا ، اُس کی اینٹ سے اینٹ بجادی ۔ اُن کے جہاز کی غراہٹ سے دل دہل جاتے تھے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ عالم صدیقی طرح ان کا جہاز بھی دشمن کو مکمل ختم کرنا چاہ رہا ہے ۔ کامیاب حملے کے بعد انہوں نے دوسرتے جہاز میں سوار اپنے ساتھی سکواڈرن لیڈر رئیس رفیع سے موسم کی صورتحال پوچھی رئیس رفیع نے انہیں محتاط رہنے کا مشورہ دیا یہ ان کا آخری رابطہ تھا ان کے جہاز کو حادثہ پیش آگیا اور دونوں ساتھیوں نے جام شہادت نوش کیا
[​IMG]
جام نگر پر عالم صدیقی کے حملہ کی مصوری

ادھر کا لونی میں بالکونیوں میں کھڑی خواتین واپسی کے طیاروں کی تعداد پوری کر رہی تھیں ایک طیارہ ابھی تک نہیں پہنچا تھا سب خواتین کے دلوں کی دھڑکنیں رک رک جا رہی تھیں شب بہت بیت چکی تھی ۔صسبح کاذب کا دھندلکا سا تھا ، نہ جانے کس کا طیارہ نہیں سب اپنے سہاگوں کی سلامتی کی طالب تھی مگر رب کریم نے انہیں کہیں زیادہ انعام دینا تھا ۔ سکواڈر ن لیڈر عالم صدیقی اور سکواڈرن لیڈر اسلم قریشی کے اہل خانہ کو اُن کے لا پتہ ہونے کی اطلاع ان کے ساتھی سکواڈرن لیڈر رئیس رفیع نے پہنچائی عالم صدیقی کی اہلیہ شہناز عالم اور اسلم قریشی کی اہلیہ پروین قریشی جن کی عمریں بیس سال کے لگ بھگ تھیں اور شیر خوار بچوں کی مائیں تھیں دونوں ے اپنی زندگی ایک گو مگو کی سی کیفیت میں گزاری ۔ چالیس سال بعد ۲۰۰۶ میں وہ ائر کموڈور ریٹائرڈ نجیب خان کی وساطت سے بھارتی فضائیہ کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئیں ۔ بھارتی فضائیہ کے سربراہ ششی تیاگی نے باقاعدہ سرکاری طور پر شہناز عالم کو بھارت کی دعوت دی اور بتایا کہ عالم صدیقی بھارت کی طیارہ شکن توپوں کا نشانہ بنے اور ان کی تدفین قریب ہی قبرستان میں کی گئی تھی

سلام ہو جن کو اللہ کریم نے یہ سعادت عطا فرمائی

میرے اللہ نے شہیدوں کو مردہ کہنے سے منع کیا ہے ، بے شک وہ زندہ ہیں مگر ہم لا شعور ہیں

سکواڈرن لیڈر علاوالدین بُچ شہید


[​IMG]

سکواڈرن لیڈر علاوالدین بُچ ایک عظیم انسان اور بہادری و حب الوطنی کی ایک بہترین مثال تھے آپ نے ۳، اکتوبر ۱۹۳۰ کو بنگال میں دنیا کے نامور آنکھوں کے ماہر ڈاکٹر تجمل احمد تمغہ امتیاز کے گھر میں آنکھ کھولی آپ کے والد توسیم ہند سے قبل کلکتہ میں مقیم تھے آزادی کے بعد مشرقی پاکستان آئے اور ۱۹۷۱ میں مغربی پاکستان منتقل ہوگئے ۔ سکواڈرن لیڈر علاوالدین بُچ نے ۱۳ ، جون ۱۹۵۲ کو پاک فضائیہ میں کمیشن حاصل کیا ۔ آپ نے تربیت کی تکمیل پر اعزازی شمشیر اور بہترین ہوابازی کی ٹرافی وصول کی ۱۹۶۵ کی جنگ میں سکواڈرن لیڈر علاوالدین بُچ نے دشمن پر پے در پے کئی حملے کیے آپ نے دوران جنگ میں بیس فضائی حملوں کی قیادت کی اُن کے ذہن میں دشمن کی تباہی کا بے مثل عزم موجود تھا ۔ ۱۳ ، ستمبر ۱۹۶۵ کو وہ قائد کی حیثیت سے فلائیٹ لینفٹنٹ منظور ، فلائیٹ لیفٹننٹ امان اللہ اور فلائیٹ لیفٹننٹ سلیم کے ساتھ دشمن کے رسل و رسائل کے نظام کو تباہ کرنے کے لیے دس بج کر تیس منٹ پر روانہ ہوئے یہ اُس دن اُن کا دوسرا مشن تھا اس سے قبل وہ چونڈہ کے محاز پر دشمن سے بر سر پیکار ٹینکوں کی ایک بڑی جنگ میں پاکستان کی برّی فوج کو تحفظ فراہم کر کے آئے تھے جہاں انہوں نے کمال بے جگری سے دشمن کے طیاروں کو بھاگنے پر مجبور کر دیا تھا ۔ کمال مہارت اور جذبہ جہاد سے سرشار یہ دستہ دشمن کے ریڈار سے بچتے ہوئے انتہا ئی نیچی پرواز کرتے ہوئے پہلے پٹھانکوٹ کے ہوائی اڈے کو تباہ اور نذر آتش کرکے واپسی میں گورداسپور ریلوے سٹیشن پہنچا جہاں اُن کی اطلاع کے مطابو سامان حرب ، اسلحے اور گولہ بارود سے لدی ہوئی مال گاڑی کھڑی تھی ۔۔ سکواڈرن لیڈر علاوالدین بُچ کو سٹیشن پر گاڑی کھڑی نظر آئی ، دستے کے تمام طیارے حملہ کرنے کی تیاری کر ہی رہے تھے کہ سکواڈرن لیڈر علاوالدین بُچ نے غوطہ لگایا اور ساتھیوں کو بتایا یہ مسافر ٹرین ہے اس پر حملہ نہیں کرنا ایسے میں فلائیٹ لیفٹننت سلیم جو فضا میں چکر لگا کر مال گاڑی کو ڈھونڈرہے تھے نے دور پٹھانکوٹ ہوائی اڈے سے آگ کے شعلوں اور دھوئیں کے بادلوں کو دیکھا انہوں نے اپنے ساتھیوں کو یہ خوشخبری سنائی ، اتنے میں سکواڈرن لیڈر علاوالدین بُچ کو مارشلنگ شیڈ میں کھڑی مال گاڑی نظر آگئی جو بھارت کی زمینی فوج کے لیے سرحد پر جا رہی تھی ۔ سکواڈرن لیڈر علاوالدین بُچ نے ساتھیوں کے ساتھ اس گاڑی پر پے درپے حملے کیے اور گاڑی کے پرخچے اُڑا دئیے

[​IMG]

اسی دوران گاڑی کے اُڑتے ہوئے ٹکڑے اُن کے جہاز کو لگے جس کے باعث اُن کا کاک پٹ دھوئیں سے بھر گیا ۔ مگر اُن کے حوصلے بلند تھے اُنہوں نے خیریت سے اپنے تمام ساتھیوں کی حفاظت کرتے ہوئے اُنہیں خیریت سے روانہ کیا اور خود جام شہادت نوش کیا اطلاعات یہ تھیں کہ اُنہوں نے جہاز سے چھلانگ لگا دی تھی مگر پاکستان کے سیسنا طیارے نے پانچ گھنٹے تک اُس علاقے میں تلاش کیا مگر وہ نہ مل سکے حکومت پاکستان نے اُن کی خدمات کے پیش نظر ستارہ جرأت کے اعزاز سے نوازا ۔