Saturday 19 October 2013

ائر مارشل نور خان ۔۔۔۔۔ قائد بے مثال



AIR MARSHAL NUR KHAN                                                     A LEGEND COMMANDER


ائر چیف مارشل انور شمیم کی کتاب سے ماخوذ

جنرل ہیڈ کوارٹرز راولپنڈی کے دورے کے دوران ائیر کموڈور اے رحیم خان اسسٹنٹ چیف آف ائیر سٹاف آپریشنز کو بتایا گیا کہ حاجی پیر اور بھارت   گلی کے مقام پر بھارتی حملوں کے جواب میں چھمب اکھنور میں بڑے آپریشنز ’’جبرالٹر‘‘ اور گرینڈ سلَیم  کی منصوبہ بندی ہو چکی ہے ۔ پاکستان ائیر فورس کی اس منصوبہ بندی میں شرکت کو ضروری نہ سمجھا گیا۔ یہ ان معاملات میں سے ایک واقعہ تھا جو یا تو باہمی اعتماد کی کمی یا جوش و جذبہ کی وجہ سے تھا۔ جب22 جولائی 1965 کو ائیر کموڈور رحیم نے دونوں ائیر مارشلز (اصغر خان اور نور خان) کو ان تیاریوں سے آگاہ کیا تو وہ ششدر رہ گئے۔23 جولائی کو قیادت سنبھالنے کے بعد ائیر مارشل نو ر خان اگلے دن جنرل موسٰی سے ملنے گئے جنہوں نے آزاد کشمیر کے مجاہدین اور فوجی جوانوں کی مدد سے مقبوضہ کشمیر میں بغاوت پیدا کرنے کے لیے آپریشن جبرالٹر شروع کرنے کی تصدیق کی ۔ اسکے بعد متنازعہ علاقے میں آپریشن گرینڈ سلَیم دریائے توی کے پار شروع ہوگا۔ لیکن انہوں نے یقین دلانے کی کوشش کی کہ یہ آپریشنز مقامی سطح تک ہی محدود ہونگے۔ اُن کے بقول آزاد کشمیر میں حاجی پیر کے مقام پر بھارت کا قبضہ پاکستان کی سا لمیت کیلئے خطرناک ہے۔ ائیر مارشل نور خان فوج کے سربراہ کا یہ حیران کن تجزیہ سن کر واپس آئے اور ان خطرناک آپریشنز کے ممکنہ مضمرات پر سوچنے لگے۔ بھارت کے ایک اہم حصہ میں کاروائی کرنا ایک طفلانہ سوچ تھی کہ وہ ان جنگ کے شعلوں کو نہیں پھیلائیں گے۔ یہ مشترکہ منصوبہ بندی کے دوران تینوں مسلح افواج اور وزارت دفاع کے مابین تفہیم اور رابطوں کی کمی کی ایک مثال ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں پاکستان کیلئے انتہائی نیک اور بھارت کے خلاف جذبات پائے جاتے تھے مگرآپریشن جبرالٹر کی منصوبہ بندی عجلت میں اور آغاز اس سے کہیں زیادہ عجلت میں کیا گیا۔ اپنے جوانوں، اسلحہ اور بارود کیلئے کوئی محفوظ مقام مقرر نہیں تھا۔ جنہوں نے اس آپریشن کا آغاز کیا نہ وہ علاقے کے دشوار گزار راستوں سے واقف تھے اور نہ ہی مقامی زبان سے آشنا تھے بہت سادگی سے یہ تصور کرلیا گیا تھاکہ ان افراد کے وہاں پہنچتے ہی فطری بیداری ہو گی۔ بھارتی فوج کے باخبر ہونے سے قبل ہی یہ آپریشن شروع ہو گیا۔ بھارت نے آزاد کشمیر کے شمالی اور جنوبی حصوں میں رابطے توڑنے کیلئے حاجی پیر کے بلند مقام پر قبضہ کر کے اس کا جواب دیا۔ آپریشن جبرالٹر مکمل طور پر ایک ناکام آپریشن تھا۔ مقبوضہ کشمیر میں بھیجے گئے یا جہاز سے اتارے گئے سب افرادیا تو مارے گئے یا پکڑے گئے بعض خوش قسمتی سے آزاد کشمیر پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ سب سے مشکل کام سی۔ 130 کے ذریعے دشوار گزار وادی میں محصور جوانوں کو سامان رسد پہنچانا تھا یہ ایک نہایت خطرناک پرواز تھی۔ اس کی حساسیت کے پیش نظر ائیر مارشل نو ر خان ونگ کمانڈر زاہد بٹ کے ہمراہ سی ۔130پر خود گئے انہوں نے معاون ہواباز کی حیثیت سے پرواز کی تاکہ ایسی دیگر پروازوں میں درپیش خطرات اور مشکلات کا خود مشاہدہ اور اندازہ کر سکیں۔ ونگ کمانڈر 


زاہد بٹ اپنے اس مشن کی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں
"  ہم نے28000 پونڈ سامان جسمیں اسلحہ، بارود اور راشن شامل تھا لے کر صبح دو بجے پرواز کی میری درخواست پر الیکٹرانک انٹیلیجنس  بی ۔57  پرسکواڈرن لیڈر اقبال40000فٹ کی بلندی سے بھارتی راڈار کی کارکردگی جانچنے کے لیے اُڑے ۔مجھے پورا یقین تھا کہ بھارتی فضائیہ لڑاکا جہاز وں کی شبینہ کاروائی کی اہل نہیں لیکن جیسے ہی ہم علاقے میں داخل ہوئے مجھے احساس ہوا کہ جموں راڈار نے ہمیں دیکھ لیا ہے بی۔ 57 بھی اپنے زمینی راڈار سے رابطہ چاہ رہا تھا ۔ جو کہ پر پیچ پہاڑی سلسلوں کے باعث منقطع ہو چکا تھا۔ بالآخر موسمی حالات کی رپورٹ پر آگے جانے یا نہ جانے کے فیصلہ کو حتمی قرار دیا گیا۔ مگر متضاد رپورٹیں ملیں۔ پہاڑوں میں ایساموسم تھا کہ میں دن کی روشنی میں بھی اس قسم کا مشن نہ کر پاتا۔ مگر اب حالات سنگین تھے ۔ جیسے ہی پرواز کے لیے بلند ہوئے 1200 فٹ سے ہی بادلوں میں داخل ہوگئے جو26000 فٹ کی بلندی تک پھیلے ہوئے تھے۔ اور جب تک ہم واپس نہ پہنچ گئے ہمیں زمین نہیں نظر آئی۔ حتٰی کہ نانگا پربت بھی نظر نہیں آرہاتھا راڈار کی تصویروں اور کمزور اندازوں سے ہمیں شاردی کا مقام تلاش کرنا تھا اور اسکی شناخت کرنا تھی یہ وہ مقام تھا جہاں سے ہم مقبوضہ کشمیر کی وادی سرینگر میں داخل ہو تے ہمیں جنوب مشرقی سمت2000فٹ سے14000 فٹ کی بلندی 200ناٹ کی رفتار سے 5000 فٹ فی منٹ کے حساب سے دو منٹ میں نیچے آنا تھا ہمارا مقصد سری نگر کی وولر جھیل کو اپنے راڈار پر دیکھنا تھا۔ اور پھر اپنے ڈراپنگ زون (DZ) کی طرف جانے کے لیے باندی پورہ کے ابتدائی ریفرنس پوائنٹ (IP)یا سیٹ کورس پوائنٹ سے اپنے بصری رابطہ کیلئے بادلوں سے نیچے آنا تھا۔ جہاں تک مجھے یاد آرہا ہے کہ یہ تقریباً آٹھ یا نو میل کا فاصلہ تھا جو باندی پورہ اور قاسم (DZ)کے درمیان 170 ڈگری پر تھا۔ جب ہم نے نیچے کیطرف پرواز کی تو ہمیں کچھ نظر نہیں آرہا تھا ۔ میں نے اپنے نیوی گیٹر فلائیٹ لیفٹینٹ رضوان کو13500 فٹ بلند چوٹیوں سے اچھی طرح باخبر رہنے کے لیے ہدایات دیتے ہوئے ایک ڈگری کا اضافہ کر دیا تھا۔ باندی پورہ پر تیزی سے14000فٹ کی بلندی پر پہنچنا بھی لازمی تھا کیونکہ اسکے عقب میں 16000فٹ بلند و بالا پہاڑ تھا لیکن ہم ہلکے بادلوں میں جھیل کے اوپر باہر آگئے۔ اور باندی پورہ ہمیں نظر آنے لگا۔ اسکے بعد ہمیں سامان پھینکنے کے لیے بالکل صحیح مقام کی تلاش تھی۔ سب سے زیادہ مسئلہ تیز رفتاری تھی ہمارے پاس 260 ناٹ کی رفتار کو 148ناٹ پر لانے کیلئے صرف 43 سیکنڈ تھے۔
صحیح مقام کی نشاندہی کے بعد کسی رفتار میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں ہونی چاہیے تھی اور مجھے قوی یقین تھا کہ ہمیں ایک ہی رفتار سے نہیں پرواز کرنی پڑے گی۔ سامان گرانے کا مقام سطح سمندر سے 1200فٹ کی بلندی پر تھا ۔ جبکہ  ہمارا پہلے سے تشخیص کردہ سامان گرانے کا مقام سطح زمین سے14000 فٹ کی بلندی پر تھا۔ ناقابل یقین طور پر کھلے ریمپ ( سی ۔ 130 کا سامان گرانے کے لیے عقبی دروازہ) اور جھکے ہوئے فلیپ سمیت ہم دوبارہ بکھرے ہوئے بادلوں اور برف میں داخل ہو گئے ہمارے بائیں جانب چار پانچ میل کے فاصلے پر 16000فٹ بلند و بالا چوٹی تھی اور سرینگر وادی میں نیچے دائیں طرف کا کنارہ ہی ہمارے بچ نکلنے کا واحد راستہ تھا۔ خوش قسمتی سے ہلکی ہلکی ہو اچل رہی تھی شاید برفباری ہو رہی تھی ۔ جبکہ ڈراپنگ زون کیلئے ہمارے پاس تقریباً ایک منٹ تھا۔ ابھی تک 148 ناٹ کی رفتار سے بے ہنگم بادلوں سے گر رہے تھے۔ بجلی کی چمک اتنی شدید تھی کہ ہماری رفتار 100 ناٹ تک کم ہوگئی تھی۔ میں صحیح طو رپر اسے یکساں برقرار نہ رکھ سکا ۔ میں نے یہ سلسلہ ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔ میں نے ایمرجنسی پاور کھول دیئے اور عملے کو ریمپ کے بند کرنے کا کہہ دیا۔
اتنے بھاری سامان کے ساتھ جہاز بہت آہستہ بلندی کی طرف جا رہا تھا۔ ہمیں بلندی کی طرف جاتے ہوئے ایک اور موڑ مڑنا تھا۔ کیونکہ ایک طرف بلند و بالا پہاڑ تھا اور دوسری طرف ایک چھوٹا سا راستہ ۔ رضوان نے اس موقع پر مکمل یقین کا اظہار کیا کہ دوسری کوشش میں و ولر جھیل ضرور تلاش کر لے گا۔ اور ایک دفعہ دوبارہ اندر وادی میں لے جائیں کمانڈر انچیف نے بھی ہمارے اس فیصلے کی تائید کی۔ ہم نے دوبارہ جھیل کو راڈار پر تلاش کر لیا۔ اور باندی پورہ سے بصری رابطہ ہو گیا۔ اس دفعہ میں سپیڈ کم کرنے کے بعد دو تین سو فٹ نیچے آگیااور ریمپ کھول دیا۔ اور نیوی گیڑ کو راڈار اور وقت پر نظر رکھتے ہوئے اسی مناسبت سے بغیر دیکھے سامان گرانے کے لیے تیار رہنے کو کہا۔ سامان گرانے سے نو سیکنڈ کے اختتام تک ہم کچھ بھی دیکھنے کے قابل نہ تھے اور ہم بادلوں میں گھرے ہوئے تھے۔ اسی لمحہ کمانڈر انچیف اور میرے معاون پائلٹ نے ڈراپنگ زون کی نشاندہی کرتے ہوئے تین جھلملاتی روشنیاں دیکھیں۔ جو عین ہمارے نیچے تھیں اور یقین ہوگیا کہ ہم نے سامان بالکل صحیح مقام پر گرایا ہے‘‘۔
اگر اسمیں ہمارے کمانڈر انچیف نہ ہوتے یہ حیران کن بہادری کا مظاہر ہالی ووڈ کی کسی فلم کا منظر ہوتا۔ درحقیقت جن ہوابازوں نے بھی ایسے مشن کیے تھے ان سب کو اسی قسم کی مشکلات کا سامنا ہوتا تھا لیکن و ہ نتائج سے بے پرواہ ہو کر مشن کی تکمیل کیلئے جان کی بازی لگا دیتے تھے ان ہوابازوں نے پرواز کا اس جنگ کے لئے جو جلد ہونے کی امید تھی ایک شعوری جذبہ پیدا کیا۔ یہ پاکستان ائیر    فورس کی آپریشن جبرالٹر۔ گرینڈ سلَیم  اور ستمبر 1965کی پہلی حربی پرواز تھی۔   پاک آرمی کے بارھویں ڈویژن نے تصدیق کی کہ گرایا گیا سامان مقررہ مقام سے آدھے میل کے فاصلے پر موصول ہو گیا۔ خراب موسم ، پر خطر گھاٹیوں اور رات کی تاریکی میں یہ ایک بہتر ین کامیابی تھی۔ اس 
کامیاب مشن کی آرمی کے جوانوں نے بہت تعریف کی اور انکے حوصلے پہلے سے زیادہ بلند و مضبوط ہو گئے ۔








Wednesday 16 October 2013

پاک فضائیہ کی قیادت کا مدبرانہ فیصلہ



A chapter from ACM Anwer Shamim Memoirs “CUTTING EDGE PAF “

 پاکستان ائر فورس کی قیادت کا مدبرانہ فیصلہ 


  1979    کے اواخر میں صدر جنرل محمد ضیاء الحق نے کہوٹہ میں ایٹمی اثاثوں کے فضائی دفاع سے متعلق گفتگو کے لیے مجھے بلایا۔ انہیں قابل اعتماد ذرائع سے اطلاعات ملی تھیں کہ بھارت ہمارے ایٹمی اثاثوں پر حملہ کر کے تباہ کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے اور وہ وقت ہمارے بدخواہوں کے لیے نہایت موزوں تھا میں نے صدر کو آگاہ کیا کہ کہوٹہ مکمل طور پر ناقابل دفاع مقام ہے کیونکہ بھارتی سرحد سے یہ صرف تین منٹ کی پرواز پر واقع ہے جبکہ جوابی مزاحمت کے لیے ہمیں آٹھ منٹ چاہیئے۔ ہمارے وہاں پہنچنے سے پہلے دشمن کاروائی مکمل کر کے با آسانی اپنے علاقے میں با حفاظت پہنچ جائے گا۔ میں نے انہیں بتایا کہ ہتھیاروں میں تضاد اور عدم توازن کی وجہ سے ہم مزاحمتی دفاع سے اپنے اثاثے نہیں بچا سکتے انہوں نے منطقی سوال پوچھا کہ ہم اپنے سب سے اہم اس دفاعی اثاثے کو کیسے بچا سکتے ہیں؟ میں نے جواب دیا ، ’’سر!ہمیں جدید ہتھیار اور نئے جدید طیارے لے دیں ہم انکے جواب میں ٹرامبے میں واقع انکی ترقی یافتہ ایٹمی تنصیبات تباہ کردیں گے اگر انہوں نے ایسا کیا ہم اُس سے کہیں زیادہ انہیں نقصان پہنچا سکیں گے۔‘‘میں نے مزید کہا کہ انتقامی کاروائی کی یہ دھمکی انہیں ایسانہیں کرنے دیگی۔ انہوں نے پوچھا کہ آپ کے ذہن میں کونسا طیارہ ہے میں نے جواب دیا کہ ہم نے اس سلسلے میں کافی کام کیا ہے ۔ اور ہمارے تجزیے کے مطابق ہماری ضروریات کے لیے ایف 16-طیارہ جدید ہتھیاروں کے ساتھ موزوں ترین ہے یہ طیارہ روسی خطرات کا بھی موثر جواب دینے کے قابل ہے۔ بحث کے دوران انہوں نے پوچھا کہ اگر ماضی کی طرح امریکہ نے اسکی فروخت اور فاضل پرزہ جات کی سپلائی پر پابندی عائد کر دی تو ہمارا لائحہ عمل کیا ہوگا۔ میں نے جواب دیا کہ ہم دوسال کے فاضل پرزہ جات جنگ کے لیے محفوظ رکھیں گے جبکہ اس کے فاضل پرزے عالمی منڈی میں قدرے مہنگے دستیاب ہیں پابندی کا اہم اثر یہ ہوگا کہ استعمال کنندہ جہاز میں ہونے والی کسی کارکردگی میں اضافے سے مستفید نہ ہو سکے گا تاہم یہ پابندی کے متبادل حفاظتی ذرائع اور تدابیر ہیں ان کو اپنایا جا سکتا ہے۔ اسکے علاوہ ہمیں اپنی ورکشاپس میں بھی وسعت دینی ہوگی تاکہ پاکستان ہی میں جہازوں کو زیادہ عرصے تک استعمال کے قابل بنایا جاسکے میں نے انہیں بتایا کہ دنیا میں کوئی بھی ملک جہاز ایک ہی مقام پر نہیں بناتا بلکہ تیار شدہ فاضل پرزہ جات لے کر جہاں سے سستے میں حاصل کر لیتے ہیں۔ اگر ہم یورپ سے جہاز لیں اور اس جہاز کو بنانے والے اس میں امریکن پرزے استعمال کریں تو عین ممکن ہے کہ امریکہ اسکی فروخت پر پابندی لگا دے میں نے انہیں بتایا کہ ہم نے اپنے انتخاب کو دو طیاروں تک محدود کر لیا ایک ایف 16-اور دوسرا فرانس کا میراج۔ 2000 ۔ میراج2000اگرچہ ایک اچھا طیارہ ہے مگر ایف 16-سے بہتر نہیں ہے۔ فرانسیسی طیارے ایف 16-سے مہنگے ہیں کیونکہ اس وقت تک یہ چند ہی طیارے بنے تھے۔ اسلیئے اس طیارے کے خریدار کم تھے۔ قیمت میں بہت فرق تھا ایف 16-ہر قسم کی ضروریات سے لیس ساڑھے تیرہ ملین ڈالر کا تھا جبکہ انہی اضافی سہولیات کے ساتھ میراج 2000تقریباً دگنی قیمت کا تھا۔
یہ تفصیلات سننے کے بعد صدر نے بتایا کہ اگلے سال انکا امریکہ جانے کا پروگرام ہے مگر وہ کارٹر کے صدر ہوتے ہوئے اس کے امکانات کم دیکھتے ہیں البتہ جب اسکے بعدریگن صدر بنیں گے تو ایف 16-ملنے کے زیادہ مکانات ہیں۔ میں نے صدر کو بتایا کہ موجودہ جہازوں سے ہم جوابی حملہ تو کر سکیں گے مگر واپسی میں ایندھن کے خاتمے کی وجہ سے ہواباز کو چھلانگ لگا کر جان بچانی پڑے گی۔ صدر میرے جوابات سے مطمئن ہو گئے
اور مجھے کہوٹہ جا کر مزید حفاظتی تدابیر تجویز کرنے کوکہا۔
افغانستان پر سویت یونین کا حملہ
  1979 میں سویت یونین کی افواج بھر پور قوت سے افغانستان میں داخل ہو گئیں۔ اس جنگ نے پاکستان میں سماجی، معاشی ، نفسیاتی ، سیاسی اور دفاعی جیسے پیچییدہ مسائل پیدا کر دیے فوجی نقطہ نگاہ سے پاکستان نے ہمیشہ مشرقی سرحدوں کی جانب سے ہی دفاع کی منصوبہ بندی کی تھی۔ اب حکومت نے پاکستان ائیر فورس اور بری فوج کو اپنے وسائل مغربی سرحد سے اٹھنے والی لہر کی مزاحمت کے لیے استعمال کرنے کی ہدایت کی اسکے ساتھ مشرقی سرحدوں کی جانب سے بھی غافل نہ ہونے کا کہا۔ پاک فضائیہ کو اس کام کی تکمیل میں دقت پیش آئی کیونکہ مغربی سرحد پر موثر کاروائی کے لیے موزوں بنیادی ڈھانچہ موجود نہ تھا ۔ دشوار گذار پہاڑیوں پر نچلی پرواز کی نگرانی کے راڈارز کا پہنچانا اور انکی موثر تنصیب نہیں ہو سکتی تھی پاک فضائیہ کو سرحد پار
خطرات سے نمٹنے کے لیے جدید ہتھیار خاص طور پر ائیر بورن وارننگ اینڈ کنٹرول سسٹم   کی فوری ضرورت تھی افغان مہاجرین میں خوف و ہراس پھیلانے ، اور حملہ کرنے کے لیئے بار بار فضائی حدود کی خلاف ورزی نے پاک فضائیہ کو اس سے نمٹنے کیلئے شدید دباؤ میں مبتلا کر دیا تھا۔ بظاہر اً ایسا لگتا تھاکہ روسی افواج کی مداخلت سے امریکن بھی چونک گئے حالانکہ سیاراتی تصاویر میں دریائے آکسس (دریائے آمو) کے پار فوج کا اجتماع واضح نظر آرہا ہو گا۔ افغانستان میں مداخلت ایک حقیقت تھی مگر کارٹر انتظامیہ کا صرف یہ ردعمل ہو ا کہ 23جنوری 1980کو سٹیٹ آف دی یونین کے خطاب میں کہا ، ’’پاکستان اور خلیج کے علاقوں پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوئی بھی کوشش امریکا کے اہم مفادات پر حملے کے مترادف ہوگی۔ ‘‘ اس بیان سے یہ واضح ہوتا ہے کہ امریکا کے مفادات افغانستان سے نہیں بلکہ خلیج کے علاقے سے وابستہ ہیں تاہم اس مداخلت سے امریکا نے ریپڈ ڈیپلائے منٹ فورس میں تیزی سے ترقی کی۔ افغانستان میں سوویت مداخلت کا مؤثر جواب نہ دینے کی وجہ کارٹر انتظامیہ کے لیے ویت نام کی شکست تھی ویت نام کی صورتحال نے امریکی انتظامیہ کو ایسی سرگرمیوں تک محدود کرد یا جن سے براہ راست انکے وسیع مفادات کوزک نہ پہنچتی ہو۔ اپنے مشاہدے کی بنا پر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ واشنگٹن میں انتظامیہ کی تبدیلی اور صدارتی محل میں فعال صدر ریگن کی آمد کے بعد امریکن سوچ میں جمود کی صورتحال ختم ہوئی اور افغانستان میں روسی مداخلت امریکہ کا 
    بنیادی مسئلہ سمجھا جانے لگا۔



اچانک بدلتے ہوئے جیو۔سٹریٹجک ماحول نے قدرے تاخیر سے امریکن انتظامیہ کو پاکستان کی اہمیت کا احساس دلایا کیونکہ افغانستان کیلئے صرف پاکستان ہی سے راستہ تھا دوسرے راستہ یعنی ایران کی جانب سے جانے کا تو سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا کیونکہ دونوں ممالک میں نفرت کی دیواریں حائل تھیں۔ امریکی حکومت نے فروری 1980میں اپنے قومی سلامتی کے مشیر ڈاکٹر بزرنسکی اور ڈپٹی سیکریٹری آف سٹیٹ مسٹر وارن کرسٹو فر کا ایک وفد پاکستان کے لیے امدادی پیکج اور 1959کے دفاعی معاہدے کی اہمیت کے پیش نظر اسکی تجدید نوپر دوستی کی جانب بڑھتے ہوئے بات چیت کے لیے پاکستان بھیجا تاہم جب ان سے سوال کیا گیا کہ امریکہ 1959کے اس سمجھوتے پر مزید پیش رفت کرتے ہوئے اسے اتحادی معاہدہ بنا سکتاہے تو ان کا جواب قطعی طور پر نفی میں تھا۔ امریکہ نے 18ماہ کی مدت میں پاکستان کو 400ملین امریکی ڈالر کی معاشی اور فوجی امداد کی پیشکش کی ۔ مگر پاکستان نے دو وجوہات کی بناء پر اسے رد کر دیا پہلی وجہ کہ یہ نا مناسب حد تک کم تھی اور دوسری اہم وجہ یہ ہمارے ایٹمی ٹیکنالوجی پروگرام سے مشروط تھا مذاکرات کی ناکامی سے
جنرل ضیاء نے فون پر صدر کارٹر کو مطلع کر دیا کہ یہ امداد پاکستان کی دفاعی صلاحیتوں کو بڑھانے کے لیے قطعی ناکافی ہے درحقیقت مذاکرات کی ناکامی کی اہم وجہ یہ تھی کہ امریکن حکومت بھارتی ردعمل پر بہت حساس تھی اور وہ پاکستان کے ایٹمی ٹیکنالوجی کے پروگرام کومنجمد کرنے کی خواہاں تھی۔ انتہائی ضرورت کے باوجود پاکستان نے امدادی پیکج مسترد کر کے واشنگٹن کو ششدر کر دیا۔ جب ایک غیر ملکی نامہ نگار نے صدر ضیاء سے انکا ر کی وجہ پوچھی تو جنرل ضیا ء نے جواب دیا کہ جب روسی گولے ہماری سرحدوں پر آگ برسارہے ہیں اس معمولی سی رقم سے قومی سلامتی کے لیے ہم کیا خرید سکتے ہیں؟ اور خود ہی جواب دیا ’’مونگ پھلی!‘‘ صدر کامقصد کارٹر کی توہین نہ تھی جو اتفاقاً مونگ پھلی کے کاشتکار تھے۔ تاہم ذرائع ابلاغ نے ’’مونگ پھلی‘‘ کا لفظ اچک لیا اور یہ صحافت میں باقاعدہ غیر موزوں کے ہم معنی استعمال ہونے لگا ڈپٹی سیکریٹری آف سٹیٹ نے دوبارہ پاکستان کا دورہ کیا تاکہ پاکستان کو معاہدہ کے لیے راضی کیا جاسکے اور پاکستان کو ایٹمی پروگرام کی پیش رفت سے روکا جاسکے اور پاکستان نے ایک بار پھر مسترد کر دیا ۔
   3 اکتوبر 1980میں جب اسلامی سربراہ کانفرنس کے چیرمین کی حیثیت سے جنرل ضیاء اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے امریکا گئے تو صدر کارٹر سے ان کے دفتر میں ملاقات کی جو ایک نہایت خوشگوار ماحول میں ہوئی ملاقات کے دوران جنرل ضیاء نے میزبان سے معاشی اور دفاعی معاملات پر کسی قسم کی گفتگو نہ کی تاہم صدر کارٹر نے اس مسئلے کو چھیڑا اور ایف 16-طیاروں کو پاکستان کو دینے کی پیش کش کی ۔ صدر ضیاء الحق نے صدر کارٹر کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا’’ ایسے حالات میں جب آپ انتخابی مہم میں مصروف ہیں میں آپ پر پاکستان کے مسائل کا بوجھ نہیں ڈالنا چاہتا اس موضوع کو امریکی انتخابات کے بعد تک ملتوی کردیں‘‘ صدر کارٹر نے پاکستان کے جواب کو سمجھنے میں غلطی کی جبکہ وہ پاکستان کی معاشی اور دفاعی مجبوریوں کو اپنی شرائط پر امداد دینے کے لیے اپنے مفا د میں استعمال کرنا چاہ رہے تھے اگر 1980میں ہونے والے صدارتی انتخاب میں کارٹر کامیاب ہو جاتے تو پاکستان کو صدر کارٹر کی ڈیموکریٹک حکومت کے ساتھ کام کرنے میں بہت مشکلات کا سامناکرنا پڑتا۔‘‘
پاکستان واپسی پر صدر ضیاء نے مجھے بلایا اور کہا فکر نہ کرومجھے یقین ہے کہ صدر ریگن انتخاب جیت جائیں گے اور ری پبلکن پارٹی کو علاقائی جیو۔سٹرٹیجک حقائق پر گہرا عبور حاصل ہوتا ہے کیونکہ وہ ڈیموکریٹک کے مقابلے میں زیادہ وسعت نظر رکھتے ہیں علاوہ ازیں ریگن کمیونسٹ فلسفہ کے باعث روس سے نفرت کرتے ہیں۔ ری پبلکن پارٹی نے انتخاب جیت لیا اور ریگن نے صدر کا عہدہ سنبھال لیا مسٹر جارج بش نے وائس پریذیڈنٹ اور جنرل ہیگ نے سیکریٹری آف سٹیٹ کا عہدہ سنبھالا۔ جنرل ہیگ کو جنوبی ایشیاء میں افغانستان پر روسی قبضہ اور بعد کی جیو ۔ سٹریٹجک صورتحال پر بہتر عبور حاصل تھا آخر کار تمام رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے 3.2بلین ڈالر کی امداد کا معاہدہ ستمبر 1981میں ہو گیا یہ معاشی اور دفاعی امداد 1982-87کی مدت کے لیے تھی جو اس امر سے مشروط تھی کہ اگر پاکستان نے ایٹمی دھماکہ کیا یا ایٹمی آلات کسی ایسے ملک کو دیئے جو اس صلاحیت سے محروم ہے یا کسی بھی ملک سے ایٹمی آلات خریدے تو یہ امداد بند ہو جائیگی ۔ امریکی انتظامیہ نے کانگرس کو یقین دلایا کہ اس امداد سے پاک بھارت کے توازن میں فرق نہیں پڑے گا اس موقعہ پر پاکستان نے واضح کر دیا تھا کہ پاکستان کسی صورت میں اپنی سرزمین پر مریکی اڈوں کی اجازت نہیں دے گا امریکہ نے اس موقعہ پر کئی معاملات اٹھائے مگر پاکستان نے سفارتی ذرائع سے اپنے تحفظات سے آگاہ کر دیا تاہم چند معاملات پر دونوں ملکوں نے باہمی تعاون پر اتفاق کیا۔
ایک مشکل سودا بازی
نومبر 1981میں امریکی انڈر سیکریٹری آف سٹیٹ مسٹر جیمز بکلے کی سربراہی میں ایک وفد پاکستان کی دفاعی امداد کے سازو سامان کا جائزہ لینے پاکستان آیا رات کو جب صدر ضیاء کی رہائش گاہ پر اس موضوع پر گفتگو ہو رہی تھی مسٹر بکلے نے انکشاف کیا کہ امریکی انتظامیہ ایف 16-کی بجائے ایف- 5E اور اسکے بعد جدید ایف 5G-کی پیشکش کر رہی ہے۔ یہاں یہ بتاتا چلوں کہ میں یہ طیارہ امریکہ میں اُڑا چکا ہوں یہ ہماری ضروریات کیلئے قطعی غیر موزوں تھا یہ اہم نوعیت کے مقامات کے فضائی دفاع کے لیے نہایت موزوں تھے یہ ایف6-سے مشابہت رکھتے تھے درحقیقت یہ لڑاکا مدافعت کے لیے ڈیزائین کیے گئے تھے اسلئے اس میں ایندھن اور ہتھیار لے جانے کی صلاحیت کم تھی نتیجتاً یہ بہت مختصر فاصلے تک موثر تھا جبکہ ہمیں ایک کثیر المقاصد طیارے کی تلاش تھی ۔ جہازپر پر واز کرنے کے بعد میں نے کمپنی کے صدر سے کہا اسے آپ نے ایف 5G -کیوں نا م دیا ہے جبکہ یہ ایف5-سے بالکل مختلف ہے ۔ درحقیقت یہ ایک بالکل مختلف جہاز تھا۔ بعد میں انہوں نے اسکا نام بدل کر ایف20-ٹائیگر شارک رکھ دیا اور انہوں نے مجھے خط لکھ کر بتایا کہ میری تجویز پر عمل کر لیا گیا ۔ بہر حال صدر کی رہائش گاہ پر ہونے والے اجلاس کا ذکر ہو رہا تھا جب انکا اصرارایف 5E-اور بعد میں ایف 5G-کے لیے بہت بڑھا تو صدر نے کہا کہ وہ اس جہاز کے سلسلے میں فضائیہ کے سربراہ سے انکی رائے معلوم کریں گے۔ صدر ضیاء نے شب پونے بارہ بجے گرین لائن پر فون کر کے مجھے جگایا اور ایف 16-کے متبادل جہاز کے لیے مجھ سے رائے پوچھی تو میں نے ایف 16-کے علاوہ کسی جہاز کو لینے سے انکار کر دیا ۔ صدر نے میرا جواب انہیں بتایا اسکے بعد مسٹر بکلے نے مسٹر ہیگ کو فون پر میرا جواب بتایا ۔ مسٹر ہیگ نے پوچھا پی اے ایف کیا چاہتی ہے تو مسٹر بکلے نے کہا ایف 16-کے متبادل کوئی جہاز قابل قبول نہیں تو مسٹر ہیگ فوراً راضی ہو گئے اس عمل میں بیس منٹ لگے اور صدر نے مجھے اچھی خبر سنائی کہ ’’تم نے ایف 16- حاصل کر لیے ‘‘ اس میں کسی قسم کی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ یہ نہ صر ف پاک فضائیہ بلکہ پاکستان کے لیے ایک نہایت اچھی خبر تھی یہ قادر مطلق کی ایک یقین دہانی تھی کہ ہمارے ایٹمی اثاثے محفوظ رہیں گے اور ہم مغربی سرحد پر روسی طیاروں کا مقابلہ کر سکیں گے ۔ اگلے دن ایف 16-طیاروں کی آمد اور عملے کی تربیت پر گفتگو ہوئی۔ انکے ٹیم لیڈر نے جہازوں کی پاکستان پہنچنے کی مدت تین سال بتائی میں نے اسے مسترد کرتے ہوئے ایک سال کی مہلت دی۔ ٹیم کے لیڈر نے کہا تمام ممالک کو ہم نے 48ماہ جبکہ صرف اسرائیل کو 42ماہ میں جہاز مہیا کیے ہیں میں نے کہا مجھے ان کا اندازہ نہیں کہ انہوں نے کیوں اتنا لمبا عرصہ لیا مگر میں 12ماہ میں ایف16-کا سکواڈرن تیار کرنا چاہتا ہوں اسے تیسری دنیا کی فضائیہ کے سربراہ کے یہ الفاظ کچھ عجیب سے لگے اس نے مزید کہا کہ جہازوں کی تیاری میں بھی تقریباً چار سال کا عرصہ لگے گا۔ ہم نے انہیں بتایا کہ ہمیں مغربی سرحدوں پر روسی جارحیت کا خطرہ ہے ہم اتنا طویل عرصہ انتظار نہیں کر سکتے ۔ میں نے انہیں بتایا کہ روسی جہاز وں کا ہمارے میراج طیاروں سے مقابلہ نہیں کیا جاسکتا اس لیے ہمیں فوری حل چاہیئے ۔ میں نے تجویز دی کہ اگر امریکن فضائیہ اپنے ایف16-طیارے ہمیں دے دے اس نے پھر بھی 42ماہ کے عرصے پر ہی اصرار جاری رکھا جب میں اپنے موقف پر ڈٹا رہا تو اس نے ایک شرط پر اس کا حل بتانے کا کہا میں نے شرط کی حامی بھر لی اس نے کہا ’’ ایک کریٹ وہسکی‘‘ ۔اس طرح ایف16-کے پہلے دستے کے حصول کا مسئلہ حل ہو گیا ۔ٹیم نے تجویز دی کہ بلجیئم ائیر فورس کے لیے تیار کیے جانے والے چھے طیارے آخری مراحل میں ہیں اور سال سے بھی کم مدت میں ان کے حوالے کرنے کے قابل ہو جائینگے کیا پاکستان بلجیئم کو اس موضوع پر بات چیت کر سکتا ہے کہ وہ ان کے حساب میں سے ہمیں دے دیں ہم کیونکہ اپنے ایٹمی اثاثوں اور مغربی سرحد پر روس سے خطرات کا سامناکر رہے تھے تو ایک سال سے کم مدت میں ان جہازوں کے حصول کے لیے اللہ نے ہمیں یہ موقع فراہم کیا تھا پاکستان اور بلجیئم میں امریکہ کی معرفت یہ سودا طے ہو گیا مگر ہمیں 6ملین ڈالر فی جہاز زائد دینے پڑے گو کہ قیمت زیادہ ہو گئی مگروقت کی ضرورت اس سے کہیں زیادہ قمیتی تھی ایک سال قبل جہازوں کے حصول کا مطلب یہ ہو اکہ جب تک بقیہ جہاز پاکستان آئیں گے ہمارے کئی ہوا باز ایف16- پر اپنی تربیت مکمل کر چکے ہونگے اسکے علاوہ چھے جدید ہتھیاروں سے لیس طیاروں اور بہترین ہوا بازوں کی وجہ سے ہمارے ایٹمی اثاثے محفوظ ہو گئے اس سمجھوتے میں اصرار کر کے میں نے یہ شِق شامل کی کہ ایف16-طیارے کے آلات اسی معیار کے ہونگے جو امریکن فضائیہ کے زیر استعمال ہیں بعد میں جب ان طیاروں میں ان آلات کے متبادل آلات کی تنصیب کا مسئلہ اُٹھا تو اسی شق کے تحت ہم نے مطلوبہ آلات کا اصرار کیا۔۔۔۔۔۔"


ترجمہ :سید زبیر اشرف

Monday 14 October 2013







ایم ایم عالم کا مایہ ناز فضائی معرکہ



6ستمبر 1965کی شام پاک فضائیہ کیلئے ملے جلے احساسات کا پیغام لائی تھی ۔ پاکستان ایئر فورس نے بھارتی فضائیہ کے اگلے فضائی اڈے پٹھانکوٹ ، آدم پور اور ہلواڑہ پر بھر پور انداز میں حملے کئے تھے ۔ آدم پور اور ہلواڑہ میں اگرچہ کوئی خاص کامیابی حاصل نہ ہوئی مگر پٹھانکوٹ میں پاک فضائیہ نے بھارت کے دس طیارے تباہ کیے اور متعدد کو نقصان پہنچایا۔ جبکہ ہلواڑہ پر حملے کے دوران پاکستان ائیر فورس نے اپنے دو مایہ ناز ہوا باز سرفراز رفیقی اور یونس کھودئیے ۔ سرگودہا کے فضائی اڈے میں غم و غصہ اور انتقام کی لہرپھیلی ہوئی تھی۔ سکواڈرن نمبر 11کے نڈر سکواڈرن کمانڈر ، سکواڈرن لیڈر محمد محمود عالم انتہائی غضبناک انداز میں اگلے دن کے لائحہ عمل تیار کررہے تھے۔ 33ونگ کے ہوا باز وں سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے رفیقی اور یونس کے لہو کا بدلہ لینے کا عہد کیا۔ چند گھنٹوں قبل غروب آفتاب کے وقت آدم پور پر حملے کیلئے جاتے ہوئے عالم نے ایک بھارتی ہنٹر کو گرایا تھا۔ انہوں نے عزم ، اعتماد کے لہجے میں یقین دلایا کہ سیبر ہنٹر کا مقابلہ کر سکتا ہے ایک طیارہ گرانے کے بعد انہوں نے یہ ثابت کردیاکہ وہ بھارتی فضائیہ کو مزید نقصان پہنچانا چاہارہے تھے۔ 7ستمبر کو علی الصبح ہونے والے بھارت کے جارحانہ حملوں کو سرگودھا نے ختم کیا۔ پہلے مسٹیئر طیارے کے جاتے ہی دو سیبر اور ایک سٹار فائٹر فضائی نگہبانی کیلئے بلند ہوئے ۔ چند ہی لمحوں بعد زمینی کنٹرول نے حملہ آور طیاروں کی آمد سے آگاہ کیا۔ دس پندرہ منٹ مشرق کی جانب پرواز کے بعد انہیں بتایا گیا کہ حملہ آور سرگودھا پر ہیں اور واپس پہنچیں ۔ اس وقت پاکستان کے وقت کے مطابق صبح کے پانچ بج کر سینتالیس منٹ 
       ہوئے تھے۔
بھارتی فضائیہ کے نمبر 27سکواڈرن ، ہلواڑہ کے سکواڈرن لیڈر ڈی ایس جوگ پانچ ہنٹر طیاروں سمیت سکواڈرن لیڈر اواین تکر۔فلائیٹ            
لیفٹینٹ ڈی این راٹھور، فلائیٹ لیفٹنٹ ٹی کے چودھری اور فلائنگ آفیسر کی قیادت کرتے ہوئے سرگودھا پر حملہ آور ہوئے۔ پہلے چھوٹا سرگودھا میں دوسری جنگ عظیم کے وقت کی ناکارہ ایئر سٹرپ کو تباہ کرنے کیلئے نیچے آئے ۔ جو کہ بھارتی فضائیہ کے جنگی منصوبے میں نہایت اہمیت کا حامل تھا۔ جب وہاں کوئی طیارہ نہ ملا تو حملہ آور فضائی دستہ مشرق کی جانب آٹھ میل کے فاصلے پر سرگودھا کے فضائی اڈے کی طرف بڑھا تاہم زمینی طیارہ شکن توپوں کے باعث عسکری تنصیب نما فیکٹری سلطان ٹیکسٹائل مل کو نشانہ بنا کر اپنا مشن مکمل کرنے لگے ۔ طیارہ شکن توپوں کے بنائے ہوئے جال سے بچنے کیلئے ہنٹر طیاروں نے بنا ء مشن مکمل کئے واپسی کی راہ اختیار کی۔ سیبرز کی ایک جوڑی جسکی قیادت فلائیٹ لیفٹنٹ امتیاز بھٹی کر رہے تھے نے دو ہنٹر طیاروں کو دیکھا مگر غور کے بعد پتہ چلا کہ ۔ ایک دوسری سیبر کی جوڑی نے ہنٹروں کو نشانے پر لے رکھا ہے۔ عقابی بصیرت کے حامل کنٹرول نے جیسے ہی حملہ آور کو دیکھا اس نے عالم اور انکے ساتھی فلائیٹ
لیفٹنٹ مسعود اختر کو پیچھا کرنے کو کہا ۔ بھٹی جو فضائی جھڑپ کے انتہائی خواہاں تھے بڑی مشکل سے اپنے آپ پر قابو پا کر اس منظر کو دیکھ رہے تھے۔ فضا میں موجود سٹار فائٹر میں فلائیٹ لیفٹنٹ عارف اقبال مسلسل بلندی سے دشمن کے طیاروں کی حرکات پر نگاہ رکھے ہوئے تھے۔ پیچھے رہنے والی ہنٹر طیاروں کی جوڑی نے دفاعی انداز میں لڑتے ہوئے سیبر کی طرف رخ کیا عالم تیزی سے بلند ہو کر دوبارہ اپنی پوزیشن پر آگئے۔ ہنٹر ابھی تک طیارہ کی گنوں کی زد میں نہیں تھے عالم نے آخری طیارے کی طرف میزائل داغ دیا۔ کیونکہ میزائل غوطہ لگاتے ہوئے انتہائی کم بلندی سے داغا گیا لہٰذا عالم اس کو زمین پر جاتے ہوئے حیران نہ ہوئے۔ میزائل کیلئے نشانے کے عقب پر کھلا آسمان ہونا نہایت موزوں رہتا ہے۔ ہنٹر طیارے درختوں کی بلندی پر پرواز کرتے ہوئے بچنے کی کوشش کررہے تھے۔ عالم کی بے چینی اس وقت ختم ہو گئی جب اچانک ایک طیارہ بجلی کی تاروں سے بچنے کیلئے بلند ہوا۔ اور عالم کے میزائل کی زد میں آگیا۔ نشانے سے آگاہ کرنے والے آلے نے ہنٹر سے خارج ہونے والی تپش کے سگنل سے آگاہ کیا۔ یہ بہترین موقع تھا عالم نے بغیر لمحہ ضائع کیے دوسرا میزائل داغ دیا۔ میزائل نے ہنٹر کے ایندھن والے حصے کو تباہ کیا۔ سکواڈرن لیڈر جوگ کے فضائی دستے کے ارکان نے بدنصیب طیارے کے پائلٹ کی ریڈیوکالز کو سنا۔
نقصان زدہ طیارے کو اوپر سے گزرتے ہوئے عالم نے دیکھا کہ ہنٹر طیارے کی کنوپی نہیں ہے۔ اور طیارے میں ہوا باز نہ تھا۔ اپنے ساتھی کے ہمراہ دوسرے طیاروں سے الجھتے ہوئے عالم نے طیارے کو ہوا باز کو چھلانگ مارتے ہوئے نہ دیکھا ۔ مگر تھوڑی ہی دیر میں اردگرد نظر دوڑانے پر عالم نے ہنٹر کے ہوا باز کو پیرا شوٹ کے ذریعے اترتا ہوا دیکھ لیا۔ بھٹی جو تھوڑے فاصلے سے یہ منظر دیکھ رہے تھے بتاتے ہیں ’’جب عالم دشمن کا پیچھا کر رہے تھے میں مستقل اس تاک میں تھا کہ شاید مجھے بھی طیارہ گرانے کا موقع مل جائے ۔ ہم دریا کے نزدیک ہی تھے کہ میں نے آسمان سے جلتا ہو شعلہ نیچے آتا دیکھا۔ مجھے بعد میں پتہ چلا کہ طیارے کے زمین تک پہنچنے سے ذرا قبل ہوا باز چھلانگ مار چکا ہے۔
ادھر فضا میں دیگر ہنٹر طیارے سکواڈرن لیڈر عالم کی نظروں سے اوجھل ہو گئے تھے۔ مگر عالم کے پاس اُنکاتعا قب کرنے کیلئے کچھ ایندھن تھا۔ جیسے ہی انہوں نے دریائے چناب عبور کیا اُنکے ساتھی طیارے کے ہواباز اختر نے سو دو سو فٹ کی بلند ی پر تقریباً 480ناٹ کی رفتار سے پرواز کرتے ہوئے طیاروں کی نشاندھی کی۔ ایم ایم عالم جیسے ہی انکو نشانے پر لینے کیلئے قریب گئے ہنٹر طیارے مایوسی کے عالم میں دفاعی انداز میں مڑے ۔ مگر عالم سے بچنے کی یہ کوشش ناکام گئی بلکہ اس طرح وہ ایک ہی قطار میں نشانے کی زد میں آگئے ۔ طلوع آفتاب کی چمک میں عالم نے آخری طیارے پر سیبر سے فائٹر کیا۔ جو اسکے ایندھن کی فاضل ٹینکوں سے لگا عالم نے نشانہ لگتے ہوئے دیکھا اور نہایت سرعت سے اگلے طیارے کو نشانے پر لیکر گولیوں کی بوچھاڑ کردی ۔ ہنٹرز بھاگتے ہوئے نظر آئے۔
نمبر 7سکواڈرن نے پانچ ہنٹر طیارے ونگ کمانڈر تورک ذچاریہ کی قیادت میں تیسرا فضائی دستہ ہلواڑہ سے حملہ کیلئے بھیجے۔ اس فضائی دستہ میں سکواڈرن لیڈر اے ایس لامبا ، سکواڈرن لیڈر ایم ایم سنہہ، سکواڈرن لیڈر ایس بی بھگوت اور فلائنگ آفیسر ایس برار شامل تھے۔ موخر الذکر دونوں مسلح محافظ کے طو پر تھے نیچی پرواز کرتے ہوئے وہ نمبر 27سکوڈرن کی واپسی کی توقع کر رہے تھے۔ تاہم جیسے ہی انہوں نے سانگلہ ہل عبور کیا۔لامبا نے دو سیبر طیاروں کو چار ہزار فٹ کی بلندی سے غوطہ لگاتے ہوئے دیکھا ۔ اس نے فوراً اپنے طیاروں کو بائیں مڑنے کو کہا ۔ ذچاریہ نے عمل کرتے ہوئے مشن بناء مکمل کئے بھاگنے کے احکامات دیئے ۔بھگوت اور برار نے فالتو بوجھ کم کیے بغیر سیبر سے الجھنے کی غلطی کر ڈالی۔ گولہ بارود کے بوجھ کے باعث ان کے بچنے کی قطعی اُمید نہ تھی اور وہ بہت جلد نشانہ بن گئے۔ ہو بازوں کے جسم کے ٹکڑے اور جہازوں کا ملبہ سسراں والی کے قریب بلہر ار چھہور مغلیاں جو کہ سانگلہ ہل قصبہ کے قریب تھے پائے گئے۔
اس دوران جوگ کے فضائی دستے نے عالم سے معجزانہ طور پر بچ کر جان بچائی البتہ جوگ اور اسکے ساتھی طیارے کے ہواباز چوہدری نے اترنے کے بعد اپنے اپنے جہازوں میں سوراخ دیکھے۔ راٹھور اور پریہار بغیر خراش کے بچ نکلے ۔ چاروں ہنٹرز جو نشانہ بنے وہ مختلف فضائی دستوں کے تھے۔ بچ کر جانے والے نمبر 27سکواڈرن کے طیارے حملے کیلئے آنے والے نمبر 7سکواڈرن کے طیاروں کے پاس سے تقریباً ایک میل کے فاصلے پر سانگلہ ہل کے اوپر سے گذرے جیسے ہی عالم نے جوگ کے ہنٹر طیارے کے عقبی حصہ پر غوطہ لگایا ۔ لامبا نے بھٹی اور انکے ساتھی سیبر طیارے کو سامنے سے آتے ہوئے دیکھا وہ سمجھا کہ ان پر حملہ ہونے اس نے فوراً بائیں طرف مڑنے کیلئے کہا۔ سکواڈرن لیڈر ایم ایم عالم اس لمحے جوگ اور چوہدری سے نصف دائرے کی شکل میں فائرنگ کے تبادلے میں مصروف تھے جبکہ بھگوت اور برار دوسرے نصف دائرے میں فائرنگ سے علیحدہ تھے۔ اگر لامبا کو معمولی سا بھی اندازہ ہوتا کہ بھٹی چند لمحوں قبل فالتو ٹنکیوں کے جھولنے کے باعث لڑائی سے کنارہ کش ہو چکے ہیں تو نمبر 7سکواڈرن باآسانی حملہ کرنے کے اہل ہوتا۔ تاہم عارف جواپنے سٹار فائٹر سے حالات پر مکمل نظر رکھے ہوئے تھے جوگ کی وارننگ کال دی جو شاید مددگار ثابت ہوتی اگر مہارت سے وہ اپنے ریڈیو کی فریکوینسی ذچاریہ کے ریڈیو سے ہم آہنگ کر لیتا۔ یہ سب کچھ اتنی تیزی سے ہوا کہ چند لمحوں کیلئے عالم بھی حیران ہو گئے۔
ذچاریہ یا غالباً جوگ کے ساتھی ہوا باز اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھ رہے تھے۔ کہ عالم کو خبر نہ ہوئی کہ اس وقت کئی طیارے بچ کر

 بھاگ نکلے ہیں اگرچہ عالم اپنے ساتھی کو تکلیف دیئے بغیر بھاگنے والے طیاروں میں سے کئی طیاروں کو نشانہ بنا سکتے تھے۔ عالم اور انکے ساتھی طیارے کے ہوا باز نو طیاروں سے نبرد آزما تھے۔ تاہم چند منٹوں میں تین طیاروں کو تباہ اور دو کو شدید نقصان پہنچایا۔
انتہائی مسرت سے عالم نے پانچ ہنٹر طیاروں کی تباہی کا مژدہ کنٹرولر کو سنایا ۔ ایک ہی مشن میں یہ اعلیٰ ترین کامیابی جنگل کی آگ کی طرح 
ہر سو پھیل گئی ۔ جس وقت عالم واپس اپنے سکواڈرن پہنچے ریڈیو پاکستان اس غیر مساویانہ جھڑپ کی کامیابی کی روداد نشر کر رہا تھا۔
اس مشن میں غیر معمولی کامیابی کا اعتراف کرتے ہوئے سکواڈرن لیڈر ایم ایم عالم کو ستارۂ جرات بار سے نوازا گیاجبکہ ستارۂ جرات ایک روز قبل ہنٹرز کے ساتھ پہلی کامیاب جھڑپ کی وجہ سے عطا کیا گیا تھا۔ انہوں نے برصغیر میں سب سے زیادہ دشمن کے طیارے گرانے کا ریکارڈ قائم رکھا۔ اور جیٹ جہازوں میں طیارے گرانے والے ACESمیں نمایاں مقام حاصل کیا۔
محمد محمود عالم پاک فضائیہ کے لڑاکا ہواباز تھے جنکی وجہ شہرت گینز بک آف ریکارڈ کے مطابق ایک منٹ میں سب سے زیادہ لڑاکا ہوائی جہاز گرانے کی ہے ۔ آپ چھے جولائی ۱۹۳۵ کو کلکتہ کے ایک علمی اور مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے ثانوی تعلیم گورنمنٹ ہائی سکول ڈھاکہ سے مکمل کرنے کے بعد دو اکتوبر ۱۹۵۳ کو پاکستان ائر فورس میں بطور لڑاکا ہواباز کمیشن حاصل کیا ۔ آپ تین بھائی تھے ، ایک بھائی اکنامکس اور دوسرے بھائی فزکس میں ڈاکٹر تھے ۔محمد محمود عالم جنہوں نے ایم ایم عالم کے نام سے شہرت پائی ، کا جذبہ حب الوطنی سرفروشی کی حد تک پہنچا ہوا تھا ۔ستمبر ۱۹۶۵ کی جنگ کے وقت وہ پاک فضائیہ کے مایہ ناز سکوڈرن نمبر ۱۱ کی کمان کر رہے تھے ۔
اکستان کے اس مایہ ناز مجاہد نے ۱۹۷۱ کے سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد اگرچہ انہیں دوران جنگ انہیں عملی طور پر پاک فضائیہ سے علیحدہ کردیا گیا تھا مگر اُنہوں نے پاکستان میں ہی جینے مرنے کو ترجیح دی ۔ اور جب بنگلہ دیش نے اُنہیں فضائیہ میں اعلیٰ قیادت کا عہدہ پیش کیا تو اُنہیں بہت دُکھ ہوا اور انہوں نے اِسے ٹھُکرا دیا ۔ وہ ائر کموڈور (ون سٹار جنرل )کے عہدے سے ریٹائر ہوئے اپنی تمام مراعات پنشن کی رقم سے دستبردار ہوئے افغانستان میں روسی جارحیت کے دوران جہادی کاموں میں مصروف رہے پاک فضائیہ کے آفیسرز میس دو کمروں کی رہائش گاہ میں کتابوں کے ساتھ درویشانہ عمر گزاری ۔

 اسلامی فلاحی کاموں میں مصروف رہے ۔ ہر وقت مطالعہ میں مستغرق اس شخص نے جس کے خاندان کا کوئی فرد پاکستان میں نہ تھا اُس نے کبھی اپنے آپ کو تنہا نہیں سمجھا پاکستان اور پاک فضائیہ کا بے لوث بے خوف ، نڈر ، مجاہد ایک بیماری سے لڑتا ہوا ۱۸ مارچ ۲۰۱۳ کو خالق حقیقی سے جا ملا مرحوم نے اپنے تین 
بھائیوں اور ایک بہن کے علاوہ کروڑوں چاہنے والوں کو سوگوار چھوڑ گئے

آئیے آج اس موقعہ پر اُنہیں دعاؤں کا نذرانہ پیش کریں ، رب العزت اُن کے درجات بلند فرمائے (آمین )


Friday 11 October 2013

عزم و شجاعت کی لازوال مثال : سکواڈرن لیڈر سرفراز رفیقی شہید

عزم و شجاعت کی لازوال مثال : سکواڈرن لیڈر سرفراز رفیقی شہید

پاک فضائیہ کے شاہینوں  کی عزم ، ہمت 'بلند حوصلے  اور بے خوفی کی داستانیں جو اب فضائی تاریخ  میں ضرب المثل کا درج اختیار کر چکی ہیں  ایسے مجاہدوں اور شہیدوں  نے اپنے لہو  سے  رقم کی ہیں  جنہوں نے وطنِ عزیز  کی عزت و حرمت و تقدس  پر  ہونے والے دشمن کے ہر وار کو کچل کر رکھ  دیا  شجاعت کے ایسے  بے شمار واقعات ہیں جو آج بھی پاک فضائیہ کے شاہینوں کے  لہو کو 
گرما دیتے ہیں ۔ ایسے واقعات اُن کے لیے لیے مشعل راہ ہیں


سرفراز رفیقی شہید  ایسی شجاعت ،دلیری  اور حب الوطنی  کی روشن مثال  ثابت ہوئے ۔ ۱۸ جولائی 
۱۹۳۵  کو راجشاہی (سابقہ مشرقی پاکستان ) میں پیدا ہونے والے اس بچے  کے کان کم سنی ہی سے ' پاکستان کا مطلب کیا ۔۔۔ لا الٰہ الا اللہ  کے نعرے سے آشنا تھے ۔ معصوم ذہن میں آزادی  کے حصول کے  لا  تعداد مناظر نقش ہو چکے تھے ۔ سرفراز رفیقی کے والد ایک تعلیم یافتہ شخص تھے اور  انشورنس  کمپنی میں ملازم تھے ۔ جب سرفراز رفیقی  گورنمنٹ ہائی سکول ملتان میں جماعت نہم کے طالب علم تھے  تو  فرانس میں ہونے والی عالمی سکاوٹ جمبورری میں اُن کا انتخاب ہوا  اُس وقت اُن کی عمر  صرف بارہ سال تھی ۱۴ اگست ۱۹۴۷  کو آپ فرانس ہی میں تھے کے پاکستان کی آزادی کا اعلان ہو گیا ۔تو شدت جذبات  سے مجبور ہو کر  اپنے دیگر تین سکاوٹ ساتھیوں کے ہمراہ گرل گائیڈز  کے ہاتھوں سے سلا ہوا سبز ہلالی پرچم  فرانس کی سڑکوں پر لہرا دیا ۔ اُنہیں خوشی تھی کہ اب اُن کی واپسی ایک آزاد ملک میں ہوگی ۔ سرفراز رفیقی  کے بڑے بھائی اعجاز رفیقی  بھی پاک فضائیہ میں ہوا باز تھے اور ایک فضائی حادثے میں شہید ہو گئے تھے جب سرفراز رفیقی نے پاک فضائیہ میں شمولیت اختیار کی  تو اُن کے والدین  مغموم تھے مگر سرفراز رفیقی نے نہائت حوصلہ سے جواب دیا  کہ
 "  جو لوگ وطن کی حفاظت کا ذمہ قبول کرتے  ہیں اُن کے لیے زندگی اور موت  کوئی حیثیت  نہیں رکھتی "
 سرفراز رفیقی میں غیرت و حمیت کوٹ کوٹ کر بھری تھی ۔ ۱۹۶۵  کے اوائل ہی سے پاک بھارت سرحدوں پر کشیدگی بڑھ گئی تھی  پاک فضائیہ مکمل جنگی حالت میں تھی  پاک فضائیہ کے شاہین اپنے جوہر دکھانے کے لیے بے چین تھے ۔ بقول پاکستان ائر فورس کے اُس وقت کے کمانڈر ان چیف ائر مارشل نور خان مرحوم و مغفور  کے  " مجھے اپنے ہوابازوں کو جنگ سے دور  رکھنے میں دشواری آرہی تھی  " (در اصل  وہ خود بھی  جوہر دکھانے کے لیے بے چین تھے )  یکم ستمبر ۱۹۶۵  میجر جنرل اختر ملک چھمب  کے محاذ پر  سرحد عبور کر کے جوڑیاں  اور اکھنور  کی جانب پندرہ میل تک پیش قدمی کرچکے تھے  پاک  فضائیہ کے  دو ایف ۸۶ سیبر اور  ایک سٹار فائٹر۱۰۴ ممکنہ فضائی حملوں کے پیش نظر  فضا میں محو پرواز تھے سہ پہر تک   کسی قسم کی فضائی مزاحمت  نہ ہوئی تو ائر مارشل نور خان  جن کی دلیری  مشہور تھی گجرات سے برّی فوج کا  ایک چھوٹا طیارہ لے کر خود  محاذ جنگ پر پہنچ گئے  واپسی پر کمانڈر ان چیف نے فضائی گشت کا وقت بڑھا دیا ۔ ائر مارشل نور خان کو اندازہ ہو گیا تھا کہ پاکستان کی برّ ی فوج  جس طرح نبرد  آزما ہو رہی تھی  تو بھارتی فضائیہ ضرور  جنگ میں کودے گی ۔پانچ بج کر بیس منٹ  پر  بھارتی طیارے فضا میں پہنچ گئے تھے ۔ اور آن کی آن ہی میں پاک فضائیہ کے دونوں سیبر دشمن پر لپکے ۔ ایک طیارے میں سکواڈرن لیڈر رفیقی اور دوسرے طیارے میں شاہین صفت فلائیٹ لیفٹنٹ  امتیاز بھٹی   (یہ ائر کموڈور  کے عہدے سے ریٹائر ہوئے اور راقم کو ان سے ملاقات کا شرف حاصل ہو چکا ہے ) تھے ۔ یہ وہ وقت تھا جب دشمن کے طیارے اپنی ہی فوج کو نشانہ بنا رہے تھے ۔ بھارت کے میجر جنرل جی ایس سندھو  اپنی کتاب " ہسٹر ی آف  انڈین کیولری "  یں لکھتے ہیں
" بھارتی طیارے انتہائی اطمینان سے اپنی برّی فوج کے لیے مدد  فراہم کرنے کے لیے روانہ ہوئے  اور اپنی ہی فوج کی ایک یونٹ  ۲۰ لانسرز  کے ٹینکوں  پر حملہ آور ہو گئے  جس سے تین ٹینک  ، اکلوتی ریکوری گاڑی  اور اسلحہ کی گاڑی تباہ ہوگئی ۔ زمینی فائر سے بھارت کا ایک ویمپائر تباہ ہوا جو فلائینگ آفیسر  پاتھک اُڑا رہا تھا ۔ "
دریں اثنا پاک فضائیہ کے شاہین پہنچ چکے تھے  جیسے ہی رفیقی  کی نظر دشمن  کے جہازوں پر پڑی انہوں نے  بھارت کے دو ویمپائر طیاروں کو نشانہ لے کر ڈھیر کردیا  تیسرا طیارہ امتیاز بھٹی نے مار گرایا  اس طرح بھارت کی اپنی فوج کا نشانہ بننے والے پاتھک کے  طیارے  کے علاوہ فلائیٹ لیفٹننٹ  اے کے بھگ واگر ، فلائیٹ لیفٹننٹ ایم وی جوشی  اور فلائٹ لیفٹننٹ ایس بھرواج اپنے ویمپائر سمیت وہیں ڈھیر ہوگئے ۔ یکم ستمبر  کے اس فضائی معرکے  نے بھارتی فضائیہ کے حوصلے پست کردئیے  ان چار طیاروں کی تباہی کے باعث  بھارت نے تقریباً ۱۳۰ ویمپائر  لڑاکا طیارے اور ۵۰ سے زائد اوریگن  طیاروں کو فوری طور پر محاذ جنگ سے پیچھے  ہٹا لیا


اس طرح ایک ہی جھٹکے سے بھارت  کی  فضائی مدافعتی قوت  ٹوٹ کر رہ گئی ۔  پاکستان ائر فورس کے سربراہ ائر مارشل نور خان جو اپنے چھوٹے طیارے  میں محاذ جنگ کا معائنہ کر کے سرگو دھا پہنچے تھے  اُن کو اس شاندار کامیابی کی اطلاع دی گئی ۔ پاکستان ائر فورس کی اس کامیابی نے پاک آرمی کے حوصلے بڑھا دئیے  برگیڈئیر امجد چودھری نے پاکستان ائر فورس کو اپنے خط میں لکھا  
"  چھمب  میں آپ کی پہلی کارگزاری  نے ہم پر یہ ثابت کردیا  کہ ہمیں دشمن کی فضائیہ  سے کوئی خطرہ لاحق نہیں  ایک ایسی اعلیٰ مثال قائم ہوئی  اور وہ منظر کبھی نہ بھلا سکیں گے  اس سے ہمارے حوصلے بلند ہوئے اور ہمیں گویا پر لگ گئے "  
سرفراز رفیقی  مسلسل  فضائی مشقوں میں حصہ لے رہے تھے  ۶ ستمبر ۱۹۶۵  جس دن صبح سویرے دشن نے پاکستان پر حملہ کیا تو پاک فضاءیہ نے شام کو غروب آفتاب کے وقت بیک وقت دشن کے ہوائی اڈوں کو نشانہ بنانے کا منصوبہ بنایا  تو سکواڈرن لیڈر رفیقی کی قیادت میں تین  طیاروں کا دستہ سرگودھا سے بھارتی ہوائی اڈے ہلواڑہ کو نشانہ بنانے  کے لیے اُڑا  اُن کے ہمراہ   ان کے نمبر ۲فلائیٹ لیفٹننٹ سیسل چودھری اور نمبر ۳   فلا ئیٹ لیفٹننٹ  یونس حسین   ( پاک فضائیہ کے  شہید سربراہ ائر چیف مارشل مصحف علی میر کے ماموں اور آئیڈیل )تھے  یہ دستہ شام کی ڈھلتی ہوئی روشنی میں سرحد عبور کر گیا  راہ میں واپس آتے ہوئے ایم ایم عالم   نے رابطہ پر  فضا میں موجود دشمن کے لا تعداد طیروں کی موجودگی سے خبردار کیا ۔  مگر سرفروشوں کی یہ جماعت  ہلواڑہ جا پہنچی ۔  بھارتی طیارے فضا میں شہد کی مکھیوں کی طرح  اُڑ رہے تھے  جب یہ دستہ  ہلواڑہ پر حملہ کرہا تھا  تو دشمن کے دس  لڑاکا  ہنٹر طیارے  ان پر ٹوٹ پڑے ۔ رفیقی نے اپنے ساتھیوںکو پٹرول کی فالتو ٹنکیاں گرانے کو کہا ۔یونس کی ٹنکیاں فنی خرابی کی وجہ سے نہ  گر سکیں  جس سے جہاز کی فوری حرکت متاثر ہو رہی تھی  رفیقی نے دو ہنٹر  طیاروں کو دیکھا  اور اُن کے عقب میں جا کر اُن کے قائد کو نشانہ پر لیا ۔ ہنٹر فضا ہی میں پھٹ گیا  یونس اور سیسل  بھی اپنے شکار پر جھپٹے  سیسل نے ایک ہنٹر طیارہ مار گرایا  اور دوسرا بھاگ گیا   یونس کو گرچہ  پلٹنے جھپٹنے میں مشکل پیش آرہی تھی پھر بھی  انہوں نےے ایک طیارے کو مار گرایا ۔ مگر دشمن کے ایک طیارے نے عقب سے اُن کی ٹنکیوں کو نشانہ بنا لیا  اس طرح فلائیٹ لیفٹننٹ  یونس نے جام شہادت نوش کیا
رفیقی  اس معرکہ میں جب دشمن سے نبرد آزما تھے  اور دشمن کے طیارے  اُن کی زد میں تھے تو انہیں معلوم ہوا کہ اُن کی گنیں جام ہو چکی ہیں  رفیقی نے راہ فرار اختیار کرنے کی بجائے کمانڈ اپنے نمبر ۲  فلائیٹ لیفٹننٹ  سیسل چودھری کو سونپ کر خود سیسل کو عقب سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے عقب میں چلے گئے ۔  جب سیسل دشمن کے طیارے گرا رہے تھے تو  دشمن نے رفیقی کے طیارے کو نشانہ بنا ڈالا  اور اس طرح رفیقی نے جام شہادت نوش کیا سیسل  بخیریت دشمن کے نرغے سے بچ کر واپس پہنچ گئے ۔
سکواڈرن لیڈر رفیقی کی بے مثال جرأ ت پر حکومت پاکستان نے انہیں  ستارہ جرأت عطا کیا
فیصل آباد ڈویژن میں اعلیٰ درجے کی ۱۷۷ ایکڑ زرعی زمین( آج اُس کی مالیت کا اندازہ آپ بخوبی کر سکتے ہیں )  انکے والدین کو دی جو انہوں نے پاک فضائیہ کے درجہ چہارم کے ملازمین کے نام وقف کردی ۔

یقیناً وہ والدین انتہائی خوش قسمت ہیں جن کے دو بیٹے وطن کی راہ میں شہید ہو کر  حیات جاوداں پا گئے  ۔رب کریم اُن کے درجات بلند فرمائے  ( آمین )