Wednesday 16 October 2013

پاک فضائیہ کی قیادت کا مدبرانہ فیصلہ



A chapter from ACM Anwer Shamim Memoirs “CUTTING EDGE PAF “

 پاکستان ائر فورس کی قیادت کا مدبرانہ فیصلہ 


  1979    کے اواخر میں صدر جنرل محمد ضیاء الحق نے کہوٹہ میں ایٹمی اثاثوں کے فضائی دفاع سے متعلق گفتگو کے لیے مجھے بلایا۔ انہیں قابل اعتماد ذرائع سے اطلاعات ملی تھیں کہ بھارت ہمارے ایٹمی اثاثوں پر حملہ کر کے تباہ کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے اور وہ وقت ہمارے بدخواہوں کے لیے نہایت موزوں تھا میں نے صدر کو آگاہ کیا کہ کہوٹہ مکمل طور پر ناقابل دفاع مقام ہے کیونکہ بھارتی سرحد سے یہ صرف تین منٹ کی پرواز پر واقع ہے جبکہ جوابی مزاحمت کے لیے ہمیں آٹھ منٹ چاہیئے۔ ہمارے وہاں پہنچنے سے پہلے دشمن کاروائی مکمل کر کے با آسانی اپنے علاقے میں با حفاظت پہنچ جائے گا۔ میں نے انہیں بتایا کہ ہتھیاروں میں تضاد اور عدم توازن کی وجہ سے ہم مزاحمتی دفاع سے اپنے اثاثے نہیں بچا سکتے انہوں نے منطقی سوال پوچھا کہ ہم اپنے سب سے اہم اس دفاعی اثاثے کو کیسے بچا سکتے ہیں؟ میں نے جواب دیا ، ’’سر!ہمیں جدید ہتھیار اور نئے جدید طیارے لے دیں ہم انکے جواب میں ٹرامبے میں واقع انکی ترقی یافتہ ایٹمی تنصیبات تباہ کردیں گے اگر انہوں نے ایسا کیا ہم اُس سے کہیں زیادہ انہیں نقصان پہنچا سکیں گے۔‘‘میں نے مزید کہا کہ انتقامی کاروائی کی یہ دھمکی انہیں ایسانہیں کرنے دیگی۔ انہوں نے پوچھا کہ آپ کے ذہن میں کونسا طیارہ ہے میں نے جواب دیا کہ ہم نے اس سلسلے میں کافی کام کیا ہے ۔ اور ہمارے تجزیے کے مطابق ہماری ضروریات کے لیے ایف 16-طیارہ جدید ہتھیاروں کے ساتھ موزوں ترین ہے یہ طیارہ روسی خطرات کا بھی موثر جواب دینے کے قابل ہے۔ بحث کے دوران انہوں نے پوچھا کہ اگر ماضی کی طرح امریکہ نے اسکی فروخت اور فاضل پرزہ جات کی سپلائی پر پابندی عائد کر دی تو ہمارا لائحہ عمل کیا ہوگا۔ میں نے جواب دیا کہ ہم دوسال کے فاضل پرزہ جات جنگ کے لیے محفوظ رکھیں گے جبکہ اس کے فاضل پرزے عالمی منڈی میں قدرے مہنگے دستیاب ہیں پابندی کا اہم اثر یہ ہوگا کہ استعمال کنندہ جہاز میں ہونے والی کسی کارکردگی میں اضافے سے مستفید نہ ہو سکے گا تاہم یہ پابندی کے متبادل حفاظتی ذرائع اور تدابیر ہیں ان کو اپنایا جا سکتا ہے۔ اسکے علاوہ ہمیں اپنی ورکشاپس میں بھی وسعت دینی ہوگی تاکہ پاکستان ہی میں جہازوں کو زیادہ عرصے تک استعمال کے قابل بنایا جاسکے میں نے انہیں بتایا کہ دنیا میں کوئی بھی ملک جہاز ایک ہی مقام پر نہیں بناتا بلکہ تیار شدہ فاضل پرزہ جات لے کر جہاں سے سستے میں حاصل کر لیتے ہیں۔ اگر ہم یورپ سے جہاز لیں اور اس جہاز کو بنانے والے اس میں امریکن پرزے استعمال کریں تو عین ممکن ہے کہ امریکہ اسکی فروخت پر پابندی لگا دے میں نے انہیں بتایا کہ ہم نے اپنے انتخاب کو دو طیاروں تک محدود کر لیا ایک ایف 16-اور دوسرا فرانس کا میراج۔ 2000 ۔ میراج2000اگرچہ ایک اچھا طیارہ ہے مگر ایف 16-سے بہتر نہیں ہے۔ فرانسیسی طیارے ایف 16-سے مہنگے ہیں کیونکہ اس وقت تک یہ چند ہی طیارے بنے تھے۔ اسلیئے اس طیارے کے خریدار کم تھے۔ قیمت میں بہت فرق تھا ایف 16-ہر قسم کی ضروریات سے لیس ساڑھے تیرہ ملین ڈالر کا تھا جبکہ انہی اضافی سہولیات کے ساتھ میراج 2000تقریباً دگنی قیمت کا تھا۔
یہ تفصیلات سننے کے بعد صدر نے بتایا کہ اگلے سال انکا امریکہ جانے کا پروگرام ہے مگر وہ کارٹر کے صدر ہوتے ہوئے اس کے امکانات کم دیکھتے ہیں البتہ جب اسکے بعدریگن صدر بنیں گے تو ایف 16-ملنے کے زیادہ مکانات ہیں۔ میں نے صدر کو بتایا کہ موجودہ جہازوں سے ہم جوابی حملہ تو کر سکیں گے مگر واپسی میں ایندھن کے خاتمے کی وجہ سے ہواباز کو چھلانگ لگا کر جان بچانی پڑے گی۔ صدر میرے جوابات سے مطمئن ہو گئے
اور مجھے کہوٹہ جا کر مزید حفاظتی تدابیر تجویز کرنے کوکہا۔
افغانستان پر سویت یونین کا حملہ
  1979 میں سویت یونین کی افواج بھر پور قوت سے افغانستان میں داخل ہو گئیں۔ اس جنگ نے پاکستان میں سماجی، معاشی ، نفسیاتی ، سیاسی اور دفاعی جیسے پیچییدہ مسائل پیدا کر دیے فوجی نقطہ نگاہ سے پاکستان نے ہمیشہ مشرقی سرحدوں کی جانب سے ہی دفاع کی منصوبہ بندی کی تھی۔ اب حکومت نے پاکستان ائیر فورس اور بری فوج کو اپنے وسائل مغربی سرحد سے اٹھنے والی لہر کی مزاحمت کے لیے استعمال کرنے کی ہدایت کی اسکے ساتھ مشرقی سرحدوں کی جانب سے بھی غافل نہ ہونے کا کہا۔ پاک فضائیہ کو اس کام کی تکمیل میں دقت پیش آئی کیونکہ مغربی سرحد پر موثر کاروائی کے لیے موزوں بنیادی ڈھانچہ موجود نہ تھا ۔ دشوار گذار پہاڑیوں پر نچلی پرواز کی نگرانی کے راڈارز کا پہنچانا اور انکی موثر تنصیب نہیں ہو سکتی تھی پاک فضائیہ کو سرحد پار
خطرات سے نمٹنے کے لیے جدید ہتھیار خاص طور پر ائیر بورن وارننگ اینڈ کنٹرول سسٹم   کی فوری ضرورت تھی افغان مہاجرین میں خوف و ہراس پھیلانے ، اور حملہ کرنے کے لیئے بار بار فضائی حدود کی خلاف ورزی نے پاک فضائیہ کو اس سے نمٹنے کیلئے شدید دباؤ میں مبتلا کر دیا تھا۔ بظاہر اً ایسا لگتا تھاکہ روسی افواج کی مداخلت سے امریکن بھی چونک گئے حالانکہ سیاراتی تصاویر میں دریائے آکسس (دریائے آمو) کے پار فوج کا اجتماع واضح نظر آرہا ہو گا۔ افغانستان میں مداخلت ایک حقیقت تھی مگر کارٹر انتظامیہ کا صرف یہ ردعمل ہو ا کہ 23جنوری 1980کو سٹیٹ آف دی یونین کے خطاب میں کہا ، ’’پاکستان اور خلیج کے علاقوں پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوئی بھی کوشش امریکا کے اہم مفادات پر حملے کے مترادف ہوگی۔ ‘‘ اس بیان سے یہ واضح ہوتا ہے کہ امریکا کے مفادات افغانستان سے نہیں بلکہ خلیج کے علاقے سے وابستہ ہیں تاہم اس مداخلت سے امریکا نے ریپڈ ڈیپلائے منٹ فورس میں تیزی سے ترقی کی۔ افغانستان میں سوویت مداخلت کا مؤثر جواب نہ دینے کی وجہ کارٹر انتظامیہ کے لیے ویت نام کی شکست تھی ویت نام کی صورتحال نے امریکی انتظامیہ کو ایسی سرگرمیوں تک محدود کرد یا جن سے براہ راست انکے وسیع مفادات کوزک نہ پہنچتی ہو۔ اپنے مشاہدے کی بنا پر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ واشنگٹن میں انتظامیہ کی تبدیلی اور صدارتی محل میں فعال صدر ریگن کی آمد کے بعد امریکن سوچ میں جمود کی صورتحال ختم ہوئی اور افغانستان میں روسی مداخلت امریکہ کا 
    بنیادی مسئلہ سمجھا جانے لگا۔



اچانک بدلتے ہوئے جیو۔سٹریٹجک ماحول نے قدرے تاخیر سے امریکن انتظامیہ کو پاکستان کی اہمیت کا احساس دلایا کیونکہ افغانستان کیلئے صرف پاکستان ہی سے راستہ تھا دوسرے راستہ یعنی ایران کی جانب سے جانے کا تو سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا کیونکہ دونوں ممالک میں نفرت کی دیواریں حائل تھیں۔ امریکی حکومت نے فروری 1980میں اپنے قومی سلامتی کے مشیر ڈاکٹر بزرنسکی اور ڈپٹی سیکریٹری آف سٹیٹ مسٹر وارن کرسٹو فر کا ایک وفد پاکستان کے لیے امدادی پیکج اور 1959کے دفاعی معاہدے کی اہمیت کے پیش نظر اسکی تجدید نوپر دوستی کی جانب بڑھتے ہوئے بات چیت کے لیے پاکستان بھیجا تاہم جب ان سے سوال کیا گیا کہ امریکہ 1959کے اس سمجھوتے پر مزید پیش رفت کرتے ہوئے اسے اتحادی معاہدہ بنا سکتاہے تو ان کا جواب قطعی طور پر نفی میں تھا۔ امریکہ نے 18ماہ کی مدت میں پاکستان کو 400ملین امریکی ڈالر کی معاشی اور فوجی امداد کی پیشکش کی ۔ مگر پاکستان نے دو وجوہات کی بناء پر اسے رد کر دیا پہلی وجہ کہ یہ نا مناسب حد تک کم تھی اور دوسری اہم وجہ یہ ہمارے ایٹمی ٹیکنالوجی پروگرام سے مشروط تھا مذاکرات کی ناکامی سے
جنرل ضیاء نے فون پر صدر کارٹر کو مطلع کر دیا کہ یہ امداد پاکستان کی دفاعی صلاحیتوں کو بڑھانے کے لیے قطعی ناکافی ہے درحقیقت مذاکرات کی ناکامی کی اہم وجہ یہ تھی کہ امریکن حکومت بھارتی ردعمل پر بہت حساس تھی اور وہ پاکستان کے ایٹمی ٹیکنالوجی کے پروگرام کومنجمد کرنے کی خواہاں تھی۔ انتہائی ضرورت کے باوجود پاکستان نے امدادی پیکج مسترد کر کے واشنگٹن کو ششدر کر دیا۔ جب ایک غیر ملکی نامہ نگار نے صدر ضیاء سے انکا ر کی وجہ پوچھی تو جنرل ضیا ء نے جواب دیا کہ جب روسی گولے ہماری سرحدوں پر آگ برسارہے ہیں اس معمولی سی رقم سے قومی سلامتی کے لیے ہم کیا خرید سکتے ہیں؟ اور خود ہی جواب دیا ’’مونگ پھلی!‘‘ صدر کامقصد کارٹر کی توہین نہ تھی جو اتفاقاً مونگ پھلی کے کاشتکار تھے۔ تاہم ذرائع ابلاغ نے ’’مونگ پھلی‘‘ کا لفظ اچک لیا اور یہ صحافت میں باقاعدہ غیر موزوں کے ہم معنی استعمال ہونے لگا ڈپٹی سیکریٹری آف سٹیٹ نے دوبارہ پاکستان کا دورہ کیا تاکہ پاکستان کو معاہدہ کے لیے راضی کیا جاسکے اور پاکستان کو ایٹمی پروگرام کی پیش رفت سے روکا جاسکے اور پاکستان نے ایک بار پھر مسترد کر دیا ۔
   3 اکتوبر 1980میں جب اسلامی سربراہ کانفرنس کے چیرمین کی حیثیت سے جنرل ضیاء اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے امریکا گئے تو صدر کارٹر سے ان کے دفتر میں ملاقات کی جو ایک نہایت خوشگوار ماحول میں ہوئی ملاقات کے دوران جنرل ضیاء نے میزبان سے معاشی اور دفاعی معاملات پر کسی قسم کی گفتگو نہ کی تاہم صدر کارٹر نے اس مسئلے کو چھیڑا اور ایف 16-طیاروں کو پاکستان کو دینے کی پیش کش کی ۔ صدر ضیاء الحق نے صدر کارٹر کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا’’ ایسے حالات میں جب آپ انتخابی مہم میں مصروف ہیں میں آپ پر پاکستان کے مسائل کا بوجھ نہیں ڈالنا چاہتا اس موضوع کو امریکی انتخابات کے بعد تک ملتوی کردیں‘‘ صدر کارٹر نے پاکستان کے جواب کو سمجھنے میں غلطی کی جبکہ وہ پاکستان کی معاشی اور دفاعی مجبوریوں کو اپنی شرائط پر امداد دینے کے لیے اپنے مفا د میں استعمال کرنا چاہ رہے تھے اگر 1980میں ہونے والے صدارتی انتخاب میں کارٹر کامیاب ہو جاتے تو پاکستان کو صدر کارٹر کی ڈیموکریٹک حکومت کے ساتھ کام کرنے میں بہت مشکلات کا سامناکرنا پڑتا۔‘‘
پاکستان واپسی پر صدر ضیاء نے مجھے بلایا اور کہا فکر نہ کرومجھے یقین ہے کہ صدر ریگن انتخاب جیت جائیں گے اور ری پبلکن پارٹی کو علاقائی جیو۔سٹرٹیجک حقائق پر گہرا عبور حاصل ہوتا ہے کیونکہ وہ ڈیموکریٹک کے مقابلے میں زیادہ وسعت نظر رکھتے ہیں علاوہ ازیں ریگن کمیونسٹ فلسفہ کے باعث روس سے نفرت کرتے ہیں۔ ری پبلکن پارٹی نے انتخاب جیت لیا اور ریگن نے صدر کا عہدہ سنبھال لیا مسٹر جارج بش نے وائس پریذیڈنٹ اور جنرل ہیگ نے سیکریٹری آف سٹیٹ کا عہدہ سنبھالا۔ جنرل ہیگ کو جنوبی ایشیاء میں افغانستان پر روسی قبضہ اور بعد کی جیو ۔ سٹریٹجک صورتحال پر بہتر عبور حاصل تھا آخر کار تمام رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے 3.2بلین ڈالر کی امداد کا معاہدہ ستمبر 1981میں ہو گیا یہ معاشی اور دفاعی امداد 1982-87کی مدت کے لیے تھی جو اس امر سے مشروط تھی کہ اگر پاکستان نے ایٹمی دھماکہ کیا یا ایٹمی آلات کسی ایسے ملک کو دیئے جو اس صلاحیت سے محروم ہے یا کسی بھی ملک سے ایٹمی آلات خریدے تو یہ امداد بند ہو جائیگی ۔ امریکی انتظامیہ نے کانگرس کو یقین دلایا کہ اس امداد سے پاک بھارت کے توازن میں فرق نہیں پڑے گا اس موقعہ پر پاکستان نے واضح کر دیا تھا کہ پاکستان کسی صورت میں اپنی سرزمین پر مریکی اڈوں کی اجازت نہیں دے گا امریکہ نے اس موقعہ پر کئی معاملات اٹھائے مگر پاکستان نے سفارتی ذرائع سے اپنے تحفظات سے آگاہ کر دیا تاہم چند معاملات پر دونوں ملکوں نے باہمی تعاون پر اتفاق کیا۔
ایک مشکل سودا بازی
نومبر 1981میں امریکی انڈر سیکریٹری آف سٹیٹ مسٹر جیمز بکلے کی سربراہی میں ایک وفد پاکستان کی دفاعی امداد کے سازو سامان کا جائزہ لینے پاکستان آیا رات کو جب صدر ضیاء کی رہائش گاہ پر اس موضوع پر گفتگو ہو رہی تھی مسٹر بکلے نے انکشاف کیا کہ امریکی انتظامیہ ایف 16-کی بجائے ایف- 5E اور اسکے بعد جدید ایف 5G-کی پیشکش کر رہی ہے۔ یہاں یہ بتاتا چلوں کہ میں یہ طیارہ امریکہ میں اُڑا چکا ہوں یہ ہماری ضروریات کیلئے قطعی غیر موزوں تھا یہ اہم نوعیت کے مقامات کے فضائی دفاع کے لیے نہایت موزوں تھے یہ ایف6-سے مشابہت رکھتے تھے درحقیقت یہ لڑاکا مدافعت کے لیے ڈیزائین کیے گئے تھے اسلئے اس میں ایندھن اور ہتھیار لے جانے کی صلاحیت کم تھی نتیجتاً یہ بہت مختصر فاصلے تک موثر تھا جبکہ ہمیں ایک کثیر المقاصد طیارے کی تلاش تھی ۔ جہازپر پر واز کرنے کے بعد میں نے کمپنی کے صدر سے کہا اسے آپ نے ایف 5G -کیوں نا م دیا ہے جبکہ یہ ایف5-سے بالکل مختلف ہے ۔ درحقیقت یہ ایک بالکل مختلف جہاز تھا۔ بعد میں انہوں نے اسکا نام بدل کر ایف20-ٹائیگر شارک رکھ دیا اور انہوں نے مجھے خط لکھ کر بتایا کہ میری تجویز پر عمل کر لیا گیا ۔ بہر حال صدر کی رہائش گاہ پر ہونے والے اجلاس کا ذکر ہو رہا تھا جب انکا اصرارایف 5E-اور بعد میں ایف 5G-کے لیے بہت بڑھا تو صدر نے کہا کہ وہ اس جہاز کے سلسلے میں فضائیہ کے سربراہ سے انکی رائے معلوم کریں گے۔ صدر ضیاء نے شب پونے بارہ بجے گرین لائن پر فون کر کے مجھے جگایا اور ایف 16-کے متبادل جہاز کے لیے مجھ سے رائے پوچھی تو میں نے ایف 16-کے علاوہ کسی جہاز کو لینے سے انکار کر دیا ۔ صدر نے میرا جواب انہیں بتایا اسکے بعد مسٹر بکلے نے مسٹر ہیگ کو فون پر میرا جواب بتایا ۔ مسٹر ہیگ نے پوچھا پی اے ایف کیا چاہتی ہے تو مسٹر بکلے نے کہا ایف 16-کے متبادل کوئی جہاز قابل قبول نہیں تو مسٹر ہیگ فوراً راضی ہو گئے اس عمل میں بیس منٹ لگے اور صدر نے مجھے اچھی خبر سنائی کہ ’’تم نے ایف 16- حاصل کر لیے ‘‘ اس میں کسی قسم کی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ یہ نہ صر ف پاک فضائیہ بلکہ پاکستان کے لیے ایک نہایت اچھی خبر تھی یہ قادر مطلق کی ایک یقین دہانی تھی کہ ہمارے ایٹمی اثاثے محفوظ رہیں گے اور ہم مغربی سرحد پر روسی طیاروں کا مقابلہ کر سکیں گے ۔ اگلے دن ایف 16-طیاروں کی آمد اور عملے کی تربیت پر گفتگو ہوئی۔ انکے ٹیم لیڈر نے جہازوں کی پاکستان پہنچنے کی مدت تین سال بتائی میں نے اسے مسترد کرتے ہوئے ایک سال کی مہلت دی۔ ٹیم کے لیڈر نے کہا تمام ممالک کو ہم نے 48ماہ جبکہ صرف اسرائیل کو 42ماہ میں جہاز مہیا کیے ہیں میں نے کہا مجھے ان کا اندازہ نہیں کہ انہوں نے کیوں اتنا لمبا عرصہ لیا مگر میں 12ماہ میں ایف16-کا سکواڈرن تیار کرنا چاہتا ہوں اسے تیسری دنیا کی فضائیہ کے سربراہ کے یہ الفاظ کچھ عجیب سے لگے اس نے مزید کہا کہ جہازوں کی تیاری میں بھی تقریباً چار سال کا عرصہ لگے گا۔ ہم نے انہیں بتایا کہ ہمیں مغربی سرحدوں پر روسی جارحیت کا خطرہ ہے ہم اتنا طویل عرصہ انتظار نہیں کر سکتے ۔ میں نے انہیں بتایا کہ روسی جہاز وں کا ہمارے میراج طیاروں سے مقابلہ نہیں کیا جاسکتا اس لیے ہمیں فوری حل چاہیئے ۔ میں نے تجویز دی کہ اگر امریکن فضائیہ اپنے ایف16-طیارے ہمیں دے دے اس نے پھر بھی 42ماہ کے عرصے پر ہی اصرار جاری رکھا جب میں اپنے موقف پر ڈٹا رہا تو اس نے ایک شرط پر اس کا حل بتانے کا کہا میں نے شرط کی حامی بھر لی اس نے کہا ’’ ایک کریٹ وہسکی‘‘ ۔اس طرح ایف16-کے پہلے دستے کے حصول کا مسئلہ حل ہو گیا ۔ٹیم نے تجویز دی کہ بلجیئم ائیر فورس کے لیے تیار کیے جانے والے چھے طیارے آخری مراحل میں ہیں اور سال سے بھی کم مدت میں ان کے حوالے کرنے کے قابل ہو جائینگے کیا پاکستان بلجیئم کو اس موضوع پر بات چیت کر سکتا ہے کہ وہ ان کے حساب میں سے ہمیں دے دیں ہم کیونکہ اپنے ایٹمی اثاثوں اور مغربی سرحد پر روس سے خطرات کا سامناکر رہے تھے تو ایک سال سے کم مدت میں ان جہازوں کے حصول کے لیے اللہ نے ہمیں یہ موقع فراہم کیا تھا پاکستان اور بلجیئم میں امریکہ کی معرفت یہ سودا طے ہو گیا مگر ہمیں 6ملین ڈالر فی جہاز زائد دینے پڑے گو کہ قیمت زیادہ ہو گئی مگروقت کی ضرورت اس سے کہیں زیادہ قمیتی تھی ایک سال قبل جہازوں کے حصول کا مطلب یہ ہو اکہ جب تک بقیہ جہاز پاکستان آئیں گے ہمارے کئی ہوا باز ایف16- پر اپنی تربیت مکمل کر چکے ہونگے اسکے علاوہ چھے جدید ہتھیاروں سے لیس طیاروں اور بہترین ہوا بازوں کی وجہ سے ہمارے ایٹمی اثاثے محفوظ ہو گئے اس سمجھوتے میں اصرار کر کے میں نے یہ شِق شامل کی کہ ایف16-طیارے کے آلات اسی معیار کے ہونگے جو امریکن فضائیہ کے زیر استعمال ہیں بعد میں جب ان طیاروں میں ان آلات کے متبادل آلات کی تنصیب کا مسئلہ اُٹھا تو اسی شق کے تحت ہم نے مطلوبہ آلات کا اصرار کیا۔۔۔۔۔۔"


ترجمہ :سید زبیر اشرف

No comments:

Post a Comment