Saturday 19 October 2013

ائر مارشل نور خان ۔۔۔۔۔ قائد بے مثال



AIR MARSHAL NUR KHAN                                                     A LEGEND COMMANDER


ائر چیف مارشل انور شمیم کی کتاب سے ماخوذ

جنرل ہیڈ کوارٹرز راولپنڈی کے دورے کے دوران ائیر کموڈور اے رحیم خان اسسٹنٹ چیف آف ائیر سٹاف آپریشنز کو بتایا گیا کہ حاجی پیر اور بھارت   گلی کے مقام پر بھارتی حملوں کے جواب میں چھمب اکھنور میں بڑے آپریشنز ’’جبرالٹر‘‘ اور گرینڈ سلَیم  کی منصوبہ بندی ہو چکی ہے ۔ پاکستان ائیر فورس کی اس منصوبہ بندی میں شرکت کو ضروری نہ سمجھا گیا۔ یہ ان معاملات میں سے ایک واقعہ تھا جو یا تو باہمی اعتماد کی کمی یا جوش و جذبہ کی وجہ سے تھا۔ جب22 جولائی 1965 کو ائیر کموڈور رحیم نے دونوں ائیر مارشلز (اصغر خان اور نور خان) کو ان تیاریوں سے آگاہ کیا تو وہ ششدر رہ گئے۔23 جولائی کو قیادت سنبھالنے کے بعد ائیر مارشل نو ر خان اگلے دن جنرل موسٰی سے ملنے گئے جنہوں نے آزاد کشمیر کے مجاہدین اور فوجی جوانوں کی مدد سے مقبوضہ کشمیر میں بغاوت پیدا کرنے کے لیے آپریشن جبرالٹر شروع کرنے کی تصدیق کی ۔ اسکے بعد متنازعہ علاقے میں آپریشن گرینڈ سلَیم دریائے توی کے پار شروع ہوگا۔ لیکن انہوں نے یقین دلانے کی کوشش کی کہ یہ آپریشنز مقامی سطح تک ہی محدود ہونگے۔ اُن کے بقول آزاد کشمیر میں حاجی پیر کے مقام پر بھارت کا قبضہ پاکستان کی سا لمیت کیلئے خطرناک ہے۔ ائیر مارشل نور خان فوج کے سربراہ کا یہ حیران کن تجزیہ سن کر واپس آئے اور ان خطرناک آپریشنز کے ممکنہ مضمرات پر سوچنے لگے۔ بھارت کے ایک اہم حصہ میں کاروائی کرنا ایک طفلانہ سوچ تھی کہ وہ ان جنگ کے شعلوں کو نہیں پھیلائیں گے۔ یہ مشترکہ منصوبہ بندی کے دوران تینوں مسلح افواج اور وزارت دفاع کے مابین تفہیم اور رابطوں کی کمی کی ایک مثال ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں پاکستان کیلئے انتہائی نیک اور بھارت کے خلاف جذبات پائے جاتے تھے مگرآپریشن جبرالٹر کی منصوبہ بندی عجلت میں اور آغاز اس سے کہیں زیادہ عجلت میں کیا گیا۔ اپنے جوانوں، اسلحہ اور بارود کیلئے کوئی محفوظ مقام مقرر نہیں تھا۔ جنہوں نے اس آپریشن کا آغاز کیا نہ وہ علاقے کے دشوار گزار راستوں سے واقف تھے اور نہ ہی مقامی زبان سے آشنا تھے بہت سادگی سے یہ تصور کرلیا گیا تھاکہ ان افراد کے وہاں پہنچتے ہی فطری بیداری ہو گی۔ بھارتی فوج کے باخبر ہونے سے قبل ہی یہ آپریشن شروع ہو گیا۔ بھارت نے آزاد کشمیر کے شمالی اور جنوبی حصوں میں رابطے توڑنے کیلئے حاجی پیر کے بلند مقام پر قبضہ کر کے اس کا جواب دیا۔ آپریشن جبرالٹر مکمل طور پر ایک ناکام آپریشن تھا۔ مقبوضہ کشمیر میں بھیجے گئے یا جہاز سے اتارے گئے سب افرادیا تو مارے گئے یا پکڑے گئے بعض خوش قسمتی سے آزاد کشمیر پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ سب سے مشکل کام سی۔ 130 کے ذریعے دشوار گزار وادی میں محصور جوانوں کو سامان رسد پہنچانا تھا یہ ایک نہایت خطرناک پرواز تھی۔ اس کی حساسیت کے پیش نظر ائیر مارشل نو ر خان ونگ کمانڈر زاہد بٹ کے ہمراہ سی ۔130پر خود گئے انہوں نے معاون ہواباز کی حیثیت سے پرواز کی تاکہ ایسی دیگر پروازوں میں درپیش خطرات اور مشکلات کا خود مشاہدہ اور اندازہ کر سکیں۔ ونگ کمانڈر 


زاہد بٹ اپنے اس مشن کی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں
"  ہم نے28000 پونڈ سامان جسمیں اسلحہ، بارود اور راشن شامل تھا لے کر صبح دو بجے پرواز کی میری درخواست پر الیکٹرانک انٹیلیجنس  بی ۔57  پرسکواڈرن لیڈر اقبال40000فٹ کی بلندی سے بھارتی راڈار کی کارکردگی جانچنے کے لیے اُڑے ۔مجھے پورا یقین تھا کہ بھارتی فضائیہ لڑاکا جہاز وں کی شبینہ کاروائی کی اہل نہیں لیکن جیسے ہی ہم علاقے میں داخل ہوئے مجھے احساس ہوا کہ جموں راڈار نے ہمیں دیکھ لیا ہے بی۔ 57 بھی اپنے زمینی راڈار سے رابطہ چاہ رہا تھا ۔ جو کہ پر پیچ پہاڑی سلسلوں کے باعث منقطع ہو چکا تھا۔ بالآخر موسمی حالات کی رپورٹ پر آگے جانے یا نہ جانے کے فیصلہ کو حتمی قرار دیا گیا۔ مگر متضاد رپورٹیں ملیں۔ پہاڑوں میں ایساموسم تھا کہ میں دن کی روشنی میں بھی اس قسم کا مشن نہ کر پاتا۔ مگر اب حالات سنگین تھے ۔ جیسے ہی پرواز کے لیے بلند ہوئے 1200 فٹ سے ہی بادلوں میں داخل ہوگئے جو26000 فٹ کی بلندی تک پھیلے ہوئے تھے۔ اور جب تک ہم واپس نہ پہنچ گئے ہمیں زمین نہیں نظر آئی۔ حتٰی کہ نانگا پربت بھی نظر نہیں آرہاتھا راڈار کی تصویروں اور کمزور اندازوں سے ہمیں شاردی کا مقام تلاش کرنا تھا اور اسکی شناخت کرنا تھی یہ وہ مقام تھا جہاں سے ہم مقبوضہ کشمیر کی وادی سرینگر میں داخل ہو تے ہمیں جنوب مشرقی سمت2000فٹ سے14000 فٹ کی بلندی 200ناٹ کی رفتار سے 5000 فٹ فی منٹ کے حساب سے دو منٹ میں نیچے آنا تھا ہمارا مقصد سری نگر کی وولر جھیل کو اپنے راڈار پر دیکھنا تھا۔ اور پھر اپنے ڈراپنگ زون (DZ) کی طرف جانے کے لیے باندی پورہ کے ابتدائی ریفرنس پوائنٹ (IP)یا سیٹ کورس پوائنٹ سے اپنے بصری رابطہ کیلئے بادلوں سے نیچے آنا تھا۔ جہاں تک مجھے یاد آرہا ہے کہ یہ تقریباً آٹھ یا نو میل کا فاصلہ تھا جو باندی پورہ اور قاسم (DZ)کے درمیان 170 ڈگری پر تھا۔ جب ہم نے نیچے کیطرف پرواز کی تو ہمیں کچھ نظر نہیں آرہا تھا ۔ میں نے اپنے نیوی گیٹر فلائیٹ لیفٹینٹ رضوان کو13500 فٹ بلند چوٹیوں سے اچھی طرح باخبر رہنے کے لیے ہدایات دیتے ہوئے ایک ڈگری کا اضافہ کر دیا تھا۔ باندی پورہ پر تیزی سے14000فٹ کی بلندی پر پہنچنا بھی لازمی تھا کیونکہ اسکے عقب میں 16000فٹ بلند و بالا پہاڑ تھا لیکن ہم ہلکے بادلوں میں جھیل کے اوپر باہر آگئے۔ اور باندی پورہ ہمیں نظر آنے لگا۔ اسکے بعد ہمیں سامان پھینکنے کے لیے بالکل صحیح مقام کی تلاش تھی۔ سب سے زیادہ مسئلہ تیز رفتاری تھی ہمارے پاس 260 ناٹ کی رفتار کو 148ناٹ پر لانے کیلئے صرف 43 سیکنڈ تھے۔
صحیح مقام کی نشاندہی کے بعد کسی رفتار میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں ہونی چاہیے تھی اور مجھے قوی یقین تھا کہ ہمیں ایک ہی رفتار سے نہیں پرواز کرنی پڑے گی۔ سامان گرانے کا مقام سطح سمندر سے 1200فٹ کی بلندی پر تھا ۔ جبکہ  ہمارا پہلے سے تشخیص کردہ سامان گرانے کا مقام سطح زمین سے14000 فٹ کی بلندی پر تھا۔ ناقابل یقین طور پر کھلے ریمپ ( سی ۔ 130 کا سامان گرانے کے لیے عقبی دروازہ) اور جھکے ہوئے فلیپ سمیت ہم دوبارہ بکھرے ہوئے بادلوں اور برف میں داخل ہو گئے ہمارے بائیں جانب چار پانچ میل کے فاصلے پر 16000فٹ بلند و بالا چوٹی تھی اور سرینگر وادی میں نیچے دائیں طرف کا کنارہ ہی ہمارے بچ نکلنے کا واحد راستہ تھا۔ خوش قسمتی سے ہلکی ہلکی ہو اچل رہی تھی شاید برفباری ہو رہی تھی ۔ جبکہ ڈراپنگ زون کیلئے ہمارے پاس تقریباً ایک منٹ تھا۔ ابھی تک 148 ناٹ کی رفتار سے بے ہنگم بادلوں سے گر رہے تھے۔ بجلی کی چمک اتنی شدید تھی کہ ہماری رفتار 100 ناٹ تک کم ہوگئی تھی۔ میں صحیح طو رپر اسے یکساں برقرار نہ رکھ سکا ۔ میں نے یہ سلسلہ ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔ میں نے ایمرجنسی پاور کھول دیئے اور عملے کو ریمپ کے بند کرنے کا کہہ دیا۔
اتنے بھاری سامان کے ساتھ جہاز بہت آہستہ بلندی کی طرف جا رہا تھا۔ ہمیں بلندی کی طرف جاتے ہوئے ایک اور موڑ مڑنا تھا۔ کیونکہ ایک طرف بلند و بالا پہاڑ تھا اور دوسری طرف ایک چھوٹا سا راستہ ۔ رضوان نے اس موقع پر مکمل یقین کا اظہار کیا کہ دوسری کوشش میں و ولر جھیل ضرور تلاش کر لے گا۔ اور ایک دفعہ دوبارہ اندر وادی میں لے جائیں کمانڈر انچیف نے بھی ہمارے اس فیصلے کی تائید کی۔ ہم نے دوبارہ جھیل کو راڈار پر تلاش کر لیا۔ اور باندی پورہ سے بصری رابطہ ہو گیا۔ اس دفعہ میں سپیڈ کم کرنے کے بعد دو تین سو فٹ نیچے آگیااور ریمپ کھول دیا۔ اور نیوی گیڑ کو راڈار اور وقت پر نظر رکھتے ہوئے اسی مناسبت سے بغیر دیکھے سامان گرانے کے لیے تیار رہنے کو کہا۔ سامان گرانے سے نو سیکنڈ کے اختتام تک ہم کچھ بھی دیکھنے کے قابل نہ تھے اور ہم بادلوں میں گھرے ہوئے تھے۔ اسی لمحہ کمانڈر انچیف اور میرے معاون پائلٹ نے ڈراپنگ زون کی نشاندہی کرتے ہوئے تین جھلملاتی روشنیاں دیکھیں۔ جو عین ہمارے نیچے تھیں اور یقین ہوگیا کہ ہم نے سامان بالکل صحیح مقام پر گرایا ہے‘‘۔
اگر اسمیں ہمارے کمانڈر انچیف نہ ہوتے یہ حیران کن بہادری کا مظاہر ہالی ووڈ کی کسی فلم کا منظر ہوتا۔ درحقیقت جن ہوابازوں نے بھی ایسے مشن کیے تھے ان سب کو اسی قسم کی مشکلات کا سامنا ہوتا تھا لیکن و ہ نتائج سے بے پرواہ ہو کر مشن کی تکمیل کیلئے جان کی بازی لگا دیتے تھے ان ہوابازوں نے پرواز کا اس جنگ کے لئے جو جلد ہونے کی امید تھی ایک شعوری جذبہ پیدا کیا۔ یہ پاکستان ائیر    فورس کی آپریشن جبرالٹر۔ گرینڈ سلَیم  اور ستمبر 1965کی پہلی حربی پرواز تھی۔   پاک آرمی کے بارھویں ڈویژن نے تصدیق کی کہ گرایا گیا سامان مقررہ مقام سے آدھے میل کے فاصلے پر موصول ہو گیا۔ خراب موسم ، پر خطر گھاٹیوں اور رات کی تاریکی میں یہ ایک بہتر ین کامیابی تھی۔ اس 
کامیاب مشن کی آرمی کے جوانوں نے بہت تعریف کی اور انکے حوصلے پہلے سے زیادہ بلند و مضبوط ہو گئے ۔








No comments:

Post a Comment